آئی کے گجرال: جہلم کا وہ سپوت جو انڈیا کا پہلا پنجابی وزیراعظم بنا
آئی کے گجرال: جہلم کا وہ سپوت جو انڈیا کا پہلا پنجابی وزیراعظم بنا
جمعرات 30 نومبر 2023 7:04
علی عباس۔ لاہور
آئی کے گجرال 30 نومبر 2012 کو آج سے پورے گیارہ برس قبل چل بسے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
یہ اس اندر کمار کی کہانی ہے جو انگریز راج کے خلاف بچوں کے جلوس کی قیادت کرنے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ جہلم کے اس سپوت کی کہانی ہے جو انڈیا کا پہلا پنجابی وزیراعظم تھا۔ یہ وہ اندر کمار ہے جس نے اندرا گاندھی کی جانب سے لگائی گئی ایمرجنسی کے دوران میڈیا پر عائد کی جانے والی پابندیوں کی کھل کر مخالفت کی۔
اس اندر کمار کے انقلابی ذہن کو لاہور آ کر اور مہمیز ملی جنھیں دنیا آئی کے گجرال کے نام سے جانتی ہے۔ انڈیا کا ایک حادثاتی وزیراعظم۔ وہ انڈیا کا ایسا پہلا وزیراعظم تھا جس کی پیدائش سرحد کے اِس پار ہوئی تھی۔
آئی کے گجرال نے 1947 میں تقسیم اور ہجرت کا درد سہا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ اس بارے میں لکھتا ہے، ’ان (آئی کے گجرال) کے والد تقریباً ایک برس تک پاکستان میں مقیم رہے اور باندی بنائی جانے والی سینکڑوں ہندو عورتوں کو انڈیا بھجواتے رہے۔ یہ ظلم سرحد کے دونوں جانب کیا گیا تھا۔ انڈیا کی ریاست پنجاب میں ان کی والدہ ان عورتوں کو خاندان کے نئے گھر میں ٹھہراتیں جسے ان خواتین کے لیے شیلٹر ہوم میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔‘
واشنگٹن پوسٹ مزید لکھتا ہے، ’برطانوی نوآبادیاتی اقتدار کے تکلیف دہ اختتام نے اندر کمار گجرال میں مسلمان یا پاکستان مخالف سوچ کو جنم نہیں دیا جیسے کہ ان کی نسل کے دوسرے ہندو سیاست دانوں میں یہ جذبات پیدا ہوئے تھے۔‘
وہ چار دسمبر 1919 کو جہلم میں پیدا ہوئے۔ یہ سال ہندوستان کی تاریخ میں اس لیے اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ اسی سال سانحہ جلیانوالہ باغ پیش آیا تھا جب جنرل ڈائر کے حکم پر سینکڑوں نہتے پنجابیوں پر گولی چلائی گئی تھی جس کے بعد آزادی کی تحریک میں تیزی پیدا ہوئی۔
اندر کمار گجرال کے والد اوتار نارائن اور والدہ پشپا گجرال آزادی کی اس جدوجہد میں پیش پیش تھے۔ ان کا شمار اس دور کے خوش حال گھرانوں میں کیا جا سکتا ہے۔ اوتار نارائن قانون کے شعبہ سے وابستہ تھے۔
جہلم کی تحصیل سوہاوہ کے گاؤں پڑی درویزہ سے تعلق رکھنے والا یہ خاندان آئی کے گجرال کی پیدائش سے قبل جہلم آ کر آباد ہو گیا تھا جہاں ان کا گھر اب بھی موجود ہے۔
یہ گاؤں جہلم سے تقریباً 25کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
کالم نگار شاہد صدیقی روزنامہ دنیا میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں، ’اس (اوتار نارائن) نے قانون کی تعلیم حاصل کر کے اپنے والد کے خواب کو سچ کر دکھایا۔ اب زندگی میں خوش حالی آ گئی تھی اور وہ پڑی درویزہ سے جہلم شہر میں آ گئے تھے اور دریا کے کنارے دو منزلہ گھر بنایا تھا جس کے جھروکوں سے دریائے جہلم کے پانیوں کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ یہیں اندر کمار کی پیدائش ہوئی تھی۔‘
جہلم سے سکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اندر کمار گجرال نے لاہور کا رُخ کیا۔ اس دور کا لاہور شہر انقلاب و رومان تھا۔
انھوں نے ڈی اے وی کالج، ہیلے کالج آف کامرس کے بعد فارمین کرسچن کالج میں داخلہ لیا اور ایم اے اکنامکس کی ڈگری حاصل کی۔
ان دنوں ان کا تعارف سلطانہ نامی خاتون سے ہوا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کی سٹوڈنٹ یونین میں سرگرم تھیں۔ سلطانہ کی شادی ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری سے ہوئی اور یہ نوجوان اندر کمار کی خوش قسمتی تھی کہ علی سردار جعفری نے انھیں اپنے حلقۂ احباب میں شامل کر لیا اور یوں وہ معروف انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی، افسانہ نگار کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی سے متعارف ہوئے۔
شاہد صدیقی لکھتے ہیں، ’کالج میں اس (آئی کے گجرال) کے استاد نے اس میں اردو شاعری سے محبت کی شمع جلائی جس کی گداز روشنی تمام عمر اس کے ساتھ رہی۔ اس استاد کا ذکر اندر کمار نے اپنی سوانح عمری میں بہت محبت اور عقیدت سے کیا ہے۔ اس استاد کی شخصیت تھی ہی ایسی من موہنی اور دل فریب۔ اندر کمار کے اس پسندیدہ استاد کا نام فیض احمد فیضؔ تھا۔‘
انڈیا ٹوڈے اپنی ایک تحریر میں لکھتا ہے، ’1942 میں (اندر کمار) گجرال نے انڈیا چھوڑو تحریک کے دوران جیل کاٹی۔ انھوں نے کالج کے دنوں میں ہی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔‘
آئی کے گجرال اکتوبر 2004 میں ساؤتھ ایشینز فار ہیومن رائٹس کے اجلاس میں شرکت کے لیے دو روزہ دورے پر لاہور آئے تو انھوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا، ’مجھے بہت زیادہ خوشی ہے کہ میں لاہور میں ہوں جہاں میں نے (تقسیم سے قبل) آٹھ سال تک تعلیم حاصل کی۔ میرا اس شہر سے ایک پرانا تعلق ہے۔‘
ان دنوں ہی اندر کمار کی زندگی میں شیلا آئیں۔ وہ شاعرہ تھیں۔ دونوں میں قربتیں پڑھیں اور وہ شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔
شاید صدیقی اس بارے میں اپنے کالم میں لکھتے ہیں، ’تب اس کی زندگی میں خوشبو کا ایک جھونکا آیا جس نے اس کی زندگی میں رنگ بکھیر دیے۔ یہ اس کی ہم جماعت شیلا تھی۔‘۔
وہ مزید لکھتے ہیں، ’وہ ایک حسین لڑکی تھی جو شعر و ادب کی رسیا تھی اور پنجابی اور انگریزی میں شاعری کرتی تھی۔ اندر کمار اسے بیاہ کر جہلم کے گھر میں لے آیا۔‘
آئی کے گجرال اور شیلا کے جنم جنم کا یہ ساتھ اس وقت ٹوٹا جب 2011 میں شیلا کی وفات ہوئی۔
آئی کے گجرال کے بھائی ستیش گجرال مصور تھے اور تقسیم سے قبل کے لاہور میں فنِ مصوری میں اپنی منفرد پہچان بنا چکے تھے۔
آئی کے گجرال نے طلبا سیاست سے گزر کر عملی سیاست میں حصہ لیا اور 1958 میں نئی دہلی میونسپل کمیٹی کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ انھوں نے انھی دنوں کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور محض چھ برس بعد اندرا گاندھی، جن کے بارے میں وہ کہا کرتے تھے کہ انھوں نے سب کچھ انھی سے حاصل کیا ہے، نے انھیں ٹکٹ دیا جس پر اپریل 1964 میں وہ راجیہ سبھا کے رُکن منتخب ہوئے۔
یوں ان کی انڈیا کی سیاست اور سفارت کاری میں طویل اننگز کا آغاز ہوا۔ وہ اندرا گاندھی کی حکومت میں کمیونیکیشنز، پارلیمانی امور اور ہاؤسنگ کے وزیر رہے۔
انڈیا ٹائمز لکھتا ہے، ’وہ اس وقت (25 جون 1975) وزیر اطلاعات اور نشریات تھے جب ایمرجنسی لگائی گئی اور بدترین پریس سنسر شپ کا آغاز ہوا۔ انھوں نے (میڈیا پر) پابندیاں لگانے سے انکار کیا تو اندرا گاندھی نے ان سے وزارت کا قلمدان واپس لے لیا گیا اور سوویت یونین میں انڈیا کا سفیر مقرر کر دیا۔ انھوں نے اپنی ذمہ داریاں بہترین انداز سے نبھائیں۔‘
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سنجے گاندھی نے ان پر میڈیا سنسر شپ کے لیے دباؤ ڈالا اور انکار پر ان سے وزارت کا قلمدان واپس لے لیا گیا۔
اسی کی دہائی میں آئی کے گجرال کانگریس سے مستعفی ہوئے اور جنتا دَل میں شامل ہو گئے۔ انھوں نے 1989 میں ہونے والے انتخابات میں پنجاب کے شہر جالندھر سے انتخاب لڑا اور کامیاب رہے اور وزیراعظم وی پی سنگھ کی حکومت میں پہلی بار وزارتِ خارجہ کا قلمدان سنبھالا۔
آئی کے گجرال کی خلیجی جنگ کے دوران عراقی صدر صدام حسین سے بغلگیر ہونے کی تصویر موضوع بحث بن گئی۔
وہ دوسری بار بہار کے شہر پٹنہ سے راجیہ سبھا کے رُکن منتخب ہوئے۔ 1996 میں جب یونائٹڈ فرنٹ کی حکومت برسرِاقتدار آئی اور ایچ ڈی دیو گائوڈا وزیراعظم بنے تو آئی کے گجرال نے ایک بار پھر وزارتِ خارجہ کا قلمدان سنبھالا۔
انھوں نے اسی دور میں گجرال ڈاکٹرائن پیش کیا جسے ان کا ایک اہم کارنامہ خیال کیا جاتا ہے۔
یہ دستاویز پانچ نکات پر مشتمل ہے جن کا مقصد انڈیا کا اپنے پڑوسی ملکوں سے تعلقات بہتر بنانا تھا اور ازراہِ تفنن بات کی جائے تو ان میں پاکستان شامل نہیں ہے۔
یہ نکات قارئین کی دلچسپی کے پیشِ نظر ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں:
(1 انڈیا اپنے پڑوسیوں بشمول بنگلہ دیش، بھوٹان، مالدیپ، نیپال اور سری لنکا سے کوئی مطالبہ نہیں کرے گا بلکہ نیک نیتی اور اعتماد کے ساتھ ان کی مدد کرے گا۔
(2 جنوبی ایشیا کے کسی بھی ملک کو اپنی سرزمین پڑوسی ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
(3 کوئی بھی ملک دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔
(4 جنوبی ایشیائی ممالک ایک دوسرے کی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کریں گے۔
(5 وہ اپنے تنازعات دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے۔
گجرال ڈاکٹرائن پر عمل کر کے جنوبی ایشیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا تھا مگر ان نکات پر جزوی طور پر ہی عمل ہو سکا۔
1997 میں کانگریس نے یونائیڈ فرنٹ کی مخلوط حکومت سے اپنی حمایت واپس لی تو وزیراعظم ایچ ڈی دیو گائوڈا کی حکومت گر گئی اور یوں آئی کے گجرال انڈیا کے وزیراعظم بن گئے۔
وہ انڈیا کے 12 ویں وزیراعظم منتخب ہوئے۔ وہ ایک سلجھے ہوئے اور نفیس انسان تھے اور اپنی خوش لباسی کے باعث مشہور تھے۔
اندر کمار گجرال نے انڈیا کے معاملات میں کبھی بیرونی مداخلت برداشت نہیں کی۔ وہ اس بارے میں واضح سوچ رکھتے تھے۔
برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی اس بارے میں لکھتا ہے، ’برطانوی وزیرخارجہ رابن کُک نے جب مسئلۂ کشمیر پر مفاہمت کروانے کی پیشکش کی تو گجرال نے برطانیہ کو ’تھرڈ ریٹ پاور‘ قرار دیا۔‘
انھوں نے قاہرہ میں مصری دانشوروں سے نجی بات چیت میں کہا تھا، ’برطانیہ ایک تھرڈ ریٹ پاور ہے۔ اس نے جب ہندوستان تقسیم کیا تو کشمیر بنایا اور اب یہ ہمیں اس کا حل بتانا چاہتا ہے۔‘
وہ ایک سال سے کم عرصے انڈیا کے وزیراعظم رہے۔ وہ 21 اپریل 1997 کو وزیراعظم منتخب ہوئے اور مارچ 1998 میں اتحاد میں پیدا ہونے والے اختلافات کے پیشِ نظر اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے جس کے بعد انھوں نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
ان کی شخصیت کا ایک اور پہلو ان کی اُردو اور پنجابی سے محبت ہے۔ وہ جن دنوں سوویت یونین میں انڈیا کے سفیر تھے۔ ان دنوں جب فیض احمد فیضؔ سوویت یونین کے دورے پر گئے تو آئی کے گجرال نے اپنے استاد کے اعزاز میں مشاعروں کا انعقاد کیا۔
بائیں بازو کی صحافت کا معتبر حوالہ مظہر علی خان بھی ان کے گہرے دوستوں میں شامل تھے۔
معروف شاعر امجد اسلام امجد اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں، ’1999 میں نیلسن منڈیلا سے بی بی سی کے انٹرویور نے پوچھا کہ وہ ایک سیاستدان اور ایک لیڈر میں کیا فرق کرتے ہیں؟ نیلسن منڈیلا صاحب کا جواب سننے کے لائق ہے، کہا’سیاستدان اگلے الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے اور لیڈر اگلی نسل کے بارے میں۔‘ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو گجرال صاحب سیاستدان سے زیادہ لیڈر کی کیٹیگری میں آتے ہیں۔
تقسیم کے بعد کے ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ انتہائی نامساعد حالات میں بھی جن ہندو لیڈروں نے انڈین مسلمانوں اور اردو کے حقوق کے بارے میں نہ صرف آواز بلند کی بلکہ عملی طور پر بھی زندگی بھر کے لیے جدوجہد کرتے رہے، آئی کے گجرال کا نام اسی فہرست میں آتا ہے۔‘
جہلم شہر میں آج بھی آئی کے گجرال کا گھر موجود ہے جو انڈیا کے اس درویش صفت وزیراعظم کی یادگار ہے جن کا سیاسی کیریئر اس حقیقت کا غماز ہے کہ اصولوں پر کمپرومائز کیے بغیر بھی سیاست میں بلند مقام حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اُردو زبان و ادب سے ان کی محبت زندگی بھر برقرار رہی اور وہ مختلف موضوعات پر مضامین لکھتے رہے جو کتابی شکل میں شائع ہوئے۔
آئی کے گجرال 30 نومبر 2012 کو آج سے پورے گیارہ برس قبل چل بسے اور یوں ایک عہد کا اختتام ہوا۔