Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’رات کہاں گزاریں‘، پشاور میں غیرملکی سیاحوں کو ہوٹلوں میں ٹھہرنے کی اجازت نہیں؟

بلی انڈک کئی بار پشاور کا سفر کر چکے ہیں۔ (فوٹو: عمران شاہ)
شام ڈھل رہی تھی اور صدر بازار کے بند ہونے کا وقت ہو گیا تھا۔ میں ایک دوست کی دکان پر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک نوجوان نمودار ہوا۔ بھورے رنگ کے کُرتے میں ملبوس وہ نوجوان چین کا شہری لگ رہا تھا لیکن جب تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ نوجوان کا تعلق انڈونیشیا سے ہے جو سیر و تفریح کی غرض سے پشاور آیا ہے۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے جیسے وہ کچھ کہنا چاہ رہا ہو مگر زبان ساتھ نہ دے رہی ہو۔ اس نے چائے پینے کے دوران ہونے والی بات چیت میں اپنا حالِ دل سنایا۔
انڈونیشین نوجوان کا نام بلی انڈک تھا، وہ ٹور گائیڈ تھا اور انڈونیشیا سے سیاحوں کو پشاور اور گلگت بلتستان لے کر آیا تھا مگر اس بار پشاور کا دورہ ان کے لیے پریشانی اور تکلیف کا باعث بن گیا۔
بلی انڈک نے بتایا کہ ’وہ کئی بار پشاور آ چکا ہے مگر گذشتہ ایک سال سے غیرملکی سیاحوں کو ہوٹل تلاش کرنے میں بہت مشکل پیش آ رہی ہے۔
انڈونیشین سیاح کے مطابق پشاور کے اندرون شہر میں ہوٹل منیجر انہیں رات ٹھہرنے سے منع کرتے ہیں جب وہ ہوٹل منیجر سے وجہ پوچھتے ہیں تو انہیں بتایا جاتا ہے کہ پولیس حکام کی جانب سے غیرملکی سیاحوں کے رات رکنے پر پابندی ہے۔
بلی انڈک نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’آخر ایک ہوٹل میں غیرملکی سیاح کے رات گزارنے پر کیوں پابندی لگائی جا سکتی ہے جبکہ میرے پاس تمام سفری دستاویزات موجود ہیں اور میں قانونی طریقے سے پاکستان آیا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’رہنے کے لیے ہوٹل نہیں تو کہاں رات گزاریں۔‘
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمیں پشاور کے صرف ان ہوٹلوں میں رہنے کی اجازت مل رہی ہے جن کا کرایہ بہت زیادہ ہے۔ ہم جیسے سیاح دو سے تین ہزار روپے سے زیادہ کا کمرہ نہیں لے سکتے مگر ہمیں آٹھ سے 10 ہزار روپے رات گزارنے کے لیے ادا کرنا پڑتے ہیں۔
بلی انڈک نے مزید بتایا کہ ’میں نے گزشتہ رات اپنے ایک دوست کے گھر پر قیام کیا جس سے میرا گزشتہ برس تعارف ہوا تھا۔ وہ اگر نہ ہوتا تو میرے لیے رات گزارنا مشکل ہو جاتا۔
انہوں نے بتایا کہ ’سیاحوں کے ساتھ یہ سلوک صرف پشاور میں ہی کیا جا رہا ہے۔ اگر اسی طرح تنگ کیا جاتا رہا تو غیرملکی سیاح پاکستان آنا بند کر دیں گے یا پھر رات گزارنے کے لیے کسی اور شہر کا رُخ کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

انڈونیشین نوجوان سیاحوں کو پشاور اور گلگت بلتستان لے کر آیا تھا۔ (فوٹو: اردو نیوز)

ہوٹل مالکان کا کیا کہنا ہے؟

اردو نیوز نے اندرون شہر کے ایک ہوٹل منیجر سے اس بارے میں بات کی تو انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ’پولیس حکام کی جانب سے تاکید کی گئی ہے کہ غیرملکیوں کو اجازت کے بغیر کمرہ نہ دیا جائے۔ ہم اسی ہدایت پر عمل کر رہے ہیں۔ ہم اگر خلاف ورزی کریں گے تو ہمارے خلاف کارروائی ہو گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہمارا کاروبار انہی سیاحوں کی وجہ سے چلتا تھا مگر اب نئی پالیسی کی وجہ سے ہمارا کام متاثر ہو رہا ہے۔

کیا غیرملکی سیاحوں کے لیے کوئی حکومتی پالیسی موجود ہے؟

خیبرپختونخوا کے ٹور گائیڈ جلیل احمد کے مطابق غیرملکیوں کے پاس ویزا اور تمام سفری دستاویزات موجود ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ مقامات پر جانے کے لیے محکمہ داخلہ سے این او سی بھی لیا جاتا ہے مگر اس کے باوجود انہیں ہوٹل میں رات گزارنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
انہوں نے کہا کہ ’زیادہ تر سیاح کم قیمت ہوٹل میں قیام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں مگر ایسے ہوٹلوں میں غیرملکیوں کے لیے کمرہ لینا کسی امتحان سے کم نہیں۔‘
ٹور گائید جلیل احمد نے بتایا کہ ’کچھ ہوٹلوں میں پانچ سے زیادہ صفحات پر مبنی فارم پُر کروائے جا رہے ہیں جس سے سیاح اُکتا جاتے ہیں۔ ہوٹل میں رہنے کے حوالے سے نئی پالیسی کے بارے میں محکمہ سیاحت کے علاوہ محکمہ داخلہ کو بھی علم نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’پشاور چونکہ ایک قدیم شہر ہے جس کے باعث غیرملکی سیاحوں، وی لاگرز، ٹریولرز اور ریسرچرز شہر کا رُخ کرتے ہیں۔ ان کے لیے اگر مشکلات پیدا کی جائیں گی تو سیاحت کا شعبہ متاثر ہو گا۔

حالات بہتر ہونے کے بعد غیرملکی سیاح اب پشاور جا رہے ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)

پولیس کا مؤقف 

ایس پی سٹی طیب جان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس کی جانب سے کسی ہوٹل کو ایسی ہدایات جاری نہیں کی گئیں اور نہ ہی کسی غیرملکی سیاح کے ٹھہرنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ’سکیورٹی خدشات کی وجہ سے ہوٹلوں کے لیے این او سی کی شرط عائد کی گئی ہے تاکہ سیاحوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
ایس پی سٹی طیب جان نے کہا کہ ’پولیس کا کام سکیورٹی فراہم کرنا ہے اور اکثر مقامات پر ہم نے سیاحوں کی سہولت کے لیے ہی پولیس اہلکار تعینات کیے ہیں۔ ’کسی سیاح کو اگر شکایت ہو تو وہ پولیس ہیلپ لائن پر شکایت درج کروا سکتا ہے۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا کے نگراں وزیر برائے سیاحت فیروز جمال شاہ نے انڈونیشین سیاح کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اپنے محکمے سے معاملے کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ ’نگراں حکومت سیاحوں کو خوش آمدید کہتی ہے۔ ہمارا کام ان کو سہولت فراہم کرنا ہے۔
نگراں صوبائی وزیر نے کہا کہ ’ہوٹل میں قیام سے متعلق اگر محکمہ داخلہ نے ایسی کوئی پالیسی بنائی ہے تو اس پر غور کیا جائے گا۔ سکیورٹی خدشات موجود ہیں مگر سیاحوں کی آسانی کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔
غیرملکی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد پشاور کے راستے افغانستان کا رُخ کرتی ہے اور پشاور شہر میں خریداری اور ویزے کے حصول کے لیے قیام ضرور کرتے ہیں۔

شیئر: