پرل ہاربر حملے میں بچ جانے والے امریکی نیوی کے اہلکاروں نے اس کے بارے میں کہانیاں سنائیں۔ فوٹو: اے ایف پی
ستمبر 1939 میں دنیا ایک بار پھر جنگ کی لپیٹ میں تھی۔ دوسری جنگِ عظیم شروع ہو چکی تھی۔ لاکھوں انسان مارے جا رہے تھے۔ یورپ میں فاشسٹ قوتوں نے جنگ کی بنیاد رکھ دی تھی جو بہت جلد دنیا کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ جرمنی میں ہونے والے ہولوکاسٹ سے جاپان کے شہروں ہیروشیما و ناگاساکی پر ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال تک بربریت کی ایسی مثالیں قائم کی گئیں جس نے دنیا کا رُخ امن کے لیے کوششیں کرنے کی جانب موڑا۔ اقوامِ متحدہ اسی دور میں قائم ہوئی جو ایک پُرامن دنیا کے خواب کو تعبیر دینے کی کوشش تھی۔
امریکہ اور جاپان میں تعلقات ہمیشہ سے ہی اس قدر خوشگوار نہیں تھے جیسے کہ اب نظر آتے ہیں۔ ان تعلقات میں آج سے پورے 82 برس قبل سات دسمبر 1941 کو ایسی دڑار پڑی جس کے بعد امریکہ نہ صرف دوسری جنگِ عظیم میں کودا بلکہ اس نے جاپان کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا لیکن امریکی تاریخ میں سات دسمبر کو ایسا کیا ہوا تھا جو دنیا میں اس قدر بڑی تبدیلیوں کا باعث بنا؟ اس کے لیے تاریخ کے پنوں میں جھانکنے کی ضرورت پیش آئے گی۔
سات دسمبر 1941 کی صبح سات بج کر 54 منٹ تک امریکی ریاست ہوائی میں واقع بحری اڈے پرل ہاربر میں معمول کی گہما گہمی تھی مگر ایک ہی منٹ بعد یہ آگ و خون میں نہا چکا تھا۔ سات بج کر 55 منٹ پر جاپانی فضائیہ کے طیاروں نے پرل ہاربر پر اس قدر اچانک حملہ کیا جس کا امریکہ نے کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔
ڈیڑھ گھنٹے کے لگ بھگ اس مختصر حملے میں امریکی بحری اڈے پر لنگر انداز پانچ جنگی جہاز تباہ ہوئے۔ 16 بحری جہازوں کو نقصان پہنچا جب کہ بحریہ اور فوج کے زیرِ استعمال 168 جنگی طیارے تباہ ہوئے۔
امریکہ کے صرف تین طیارہ بردار بحری جہاز ہی بچ پائے کیوں کہ وہ اس روز کھلے پانیوں میں موجود تھے۔
پرل ہاربر کا یہ حملہ امریکہ کے اجتماعی شعور میں نو گیارہ سے پہلے تک ایسا واحد حملہ تھا جسے امریکی عوام کبھی فراموش نہیں کر سکے۔
اس تباہ کن حملے میں امریکہ کے 24 سو سے زیادہ فوجی ہلاک ہوئے جب کہ 1178 زخمی ہوئے۔ بحری اڈے پر موجود امریکی فوج نے مزاحمت تو کی مگر وہ اس اچانک حملے کو روکنے میں کامیاب نہ ہو سکی اور جاپان کے سو سے کم فوجی ہی ہلاک ہوئے مگر وہ دوسری جنگِ عظیم کو ایک نیا رُخ دینے میں کامیاب ہو گیا۔
امریکی ٹیلی ویژن چینل نیشل جیوگرافک اس حوالے سے اپنی ویب سائٹ پر لکھتا ہے، ’20 ویں صدی کے اوائل سے ہی جاپان اور امریکہ کے درمیان تنائو موجود رہا تھا جو اس وقت غیرمعمولی طور پر بڑھ گیا جب جاپان نے چین کو فتح کرنے کی کوشش کی حتیٰ کہ عام شہریوں کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا۔‘
اس رپورٹ کے مطابق، سنہ 1937 میں جاپان اور چین جنگ میں آمنے سامنے تھے۔ سنہ 1940 تک امریکہ جاپان کی اس توسیع پسندی کو اپنے مفادات کے لیے اس حد تک خطرہ خیال کر رہا تھا کہ اس نے چین کو فوجی امداد فراہم کرنے کے علاوہ جاپان پر پابندیاں بھی عائد کرنا شروع کر دی تھیں۔
نیشنل جیوگرافک کی اس رپورٹ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ’جاپان نے جب نازی جرمنی، اٹلی اور سوویت یونین کے ساتھ سنہ 1940-41 میں دفاعی معاہدے کیے تو امریکہ نے جاپانی اثانے منجمد کر دیے اور جاپان کو ہر طرح کی برآمدات پر پابندی عائد کر دی۔‘
امریکہ اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہا تھا۔ امریکیوں کی وہ نسل ابھی زندہ تھی جس نے پہلی جنگِ عظیم کی ہولناکیوں اور گریٹ ڈپریشن جیسے بدترین معاشی بحران کی تکلیف سہی تھی۔ وہ اس جنگ سے دور رہنا چاہتے تھے اور یوں انھوں نے بیرونِ ملک جنگ میں حصہ لینے کی کھل کر مخالفت کی تو دوسری جانب ایسے امریکیوں کی بھی کمی نہ تھی جو جنگ کا سامنا کر رہے امریکی اتحادیوں کی مدد کے خواہاں تھے۔
اس وقت امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ تھے جو جنگ میں تو شریک نہیں ہوئے مگر انھوں نے برطانیہ اور چین کی ہتھیاروں اور فوجی سازوسامان کے ساتھ مدد کی۔
نیشنل جیوگرافک پرل ہارپر پر حملے کے تناظر میں لکھتا ہے، ’لیکن جاپان نے چین کے ساتھ جنگ جاری رکھی ہوئی تھی جس کے باعث جاپان کے ساتھ جنگ کا ہونا ناگزیر ہو چکا تھا۔ ان حالات میں جاپانی رہنما اپنے امکانات کا جائزہ لے رہے تھے۔ امریکی بحریہ اس وقت تک ناقابلِ تسخیر تھی اور جاپان اس قدر وسائل نہیں رکھتا تھا جو امریکی خطرے سے پیش آنے اور اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے درکار تھے۔ ان کے سامنے صرف ایک ہی راستہ تھا اور وہ امریکہ پر اچانک حملہ کرنا تھا۔ ‘
اس مضمون کے مطابق، جاپانی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل یاماموتو اسوروکو نے جاپانی فوجی حکام کو امریکہ کے ساتھ اعلانِ جنگ کرنے سے گریز کا مشورہ دیتے ہوئے بحرالکاہل کے کھلے پانیوں میں امریکہ کا مقابلہ کرنے پر قائل کر لیا تاکہ بحرالکاہل پر امریکی جنگی طائفے کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جا سکے۔
امریکی تاریخ میں پرل ہاربر پر حملے نے امریکہ کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے تصور پر گہری ضرب لگائی جب کہ دوسرا حملہ نو گیارہ کو ہوا جس نے ایک بار پھر امریکہ کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے زعم کو لمحوں میں خاک کر دیا۔
جاپان نے اس حملے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اگلے چند دنوں کے دوران جاپان کی شاہی افواج نے فلپائن کے علاوہ ایک امریکی کالونی، انڈوچائنا کی فرانسیسی کالونی اور برطانوی کالونی میں نہ صرف مداخلت کی بلکہ وہ اپریل 1942 تک ان علاقوں پر اپنی عملداری قائم کرنے میں بھی کامیاب رہا۔
جاپانی فوج نے بحرالکاہل میں ان کارروائیوں کے دوران ہزاروں برطانوی، فرانسیسی اور امریکی فوجیوں کو قیدی بنایا جنھیں حراستی مراکز میں رکھا گیا۔ ان قیدیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے بڑے مال بردار بحری جہازوں کا استعمال کیا گیا۔ ان قیدیوں کو سفر کے دوران نہ صرف خوراک کی شدید قلت کا سامنا تھا بلکہ ان کے علاج کے لیے مناسب سہولیات کا بھی فقدان تھا۔ دوسری جانب یہ جہاز امریکی اور برطانوی فضائیہ کے لیے ایک آسان ہدف بن گئے اور یوں قیدیوں کی موت نے ایک اور انسانی المیے کو جنم دیا۔
پرل ہاربر پر حملے کی تفصیل بیان کرنے کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہوں گے مگر ان دو سوالوں کا جواب پانا ازبس اہم ہے کہ جاپان کے پرل ہاربر پر حملے نے امریکی اور دنیا کی تاریخ پر کیا اثرات مرتب کیے؟
امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم گریجویٹ سکول انسٹی ٹیوٹ آف ورلڈ پالیٹکس سے منسلک انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر ڈاکٹر جان جے ٹائیرنی جونیئر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ’پرل ہاربر پر حملہ قومی اتحاد کے آغاز کی بنیاد ثابت ہوا، امریکی تنہائی ختم ہوئی اور امریکہ دوسری جنگِ عظیم میں شامل ہوا اور یوں امریکہ کے ’عالمی طاقت‘ بننے کے سفر کا آغاز ہوا۔‘
ملٹی میڈیا پورٹل ہسٹری ہٹ کے لیے مصنفہ سارا رولر پرل ہاربر کے حملے کے دنیا پر ہونے والے اثرات کے موضوع پر اپنے ایک مضمون میں ان تبدیلیوں کا احاطہ کرتی ہیں جن کا پرل ہاربر پر حملے کے بعد دنیا نے سامنا کیا، وہ لکھتی ہیں، ’(پرل ہاربر پر حملے کے ایک روز بعد) آٹھ دسمبر 1941 کو امریکہ جاپان کے خلاف اعلانِ جنگ کرتا ہوا دوسری جنگِ عظیم کا حصہ بن گیا اور کچھ ہی دنوں بعد 11 دسمبر کو امریکہ نے جرمنی اور جاپان کے اعلانات کے بعد ان کے خلاف بھی اعلانِ جنگ کر دیا۔ یوں ملک دو محاذوں پر جنگ لڑ رہا تھا، اور پوری طرح جنگ میں شامل ہو چکا تھا۔‘
وہ مزید لکھتی ہیں، ’امریکہ بہ ظاہر راتوں رات الائیڈ فورسز کا اہم ترین رکن بن گیا۔‘
اس مضمون کے مطابق امریکہ کی جانب سے جنگ میں افرادی قوت، اسلحے، تیل اور خوراک کی بڑے پیمانے پر فراہمی کے بعد الائید فورسز کو نئی امید اور بہتر مواقع حاصل ہوئے، جس سے جنگ کا رُخ ان کے حق میں ہو گیا۔
پرل ہاربر پر حملے سے قبل 1930 کی دہائی کے دوران امریکی قوم یورپ میں سنہ 1939 سے شروع ہونے والی دوسری جنگِ عظیم میں حصہ لینے کے حوالے سے منقسم رائے رکھتی تھی مگر پرل ہاربر پر حملے نے امریکی عوام کو ایک بار پھر متحد کر دیا اور انھوں نے جنگ کا حصہ بننے کے حق میں فیصلہ دیا۔
ہسٹری ہٹ میں شائع ہونے والے اس مضمون کے مطابق، ’پرل ہاربر پر ہونے والے حملے کے بعد برطانیہ اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ تعلقات مزید مضبوط ہوئے۔‘
اس پورے پس منظر میں یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کیا امریکہ نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی بم پرل ہاربر کا بدلہ لینے کے لیے برسائے؟ اس کا جواب امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین واضح لفظوں میں دے چکے ہیں جنھوں نے اپنے اس فیصلے کو جواز دینے کے لیے جاپان کے پرل ہاربر پر اچانک حملے اور امریکی قیدیوں کی موت کی جانب اشارہ کیا تھا۔ انھوں نے ان ایٹمی دھماکوں کے استعمال کے کچھ دن بعد لکھا تھا، ’آپ کا سامنا جب ایک حیوان سے ہو تو آپ کو حیوان ہی بننا پڑتا ہے۔‘
اور پھر 11 ستمبر 2011 کو امریکہ پر ایسا ہی ایک اور اچانک حملہ ہوا۔ یونیورسٹی آف واشنگٹن کی ویب سائٹ پر اس بارے میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق، نو گیارہ کے واقعات بڑی حد تک پرل ہاربر کے واقعات سے مماثلت رکھتے ہیں۔ ان دونوں اچانک حملوں کے بعد ہم نے تکلیف دہ طور پر یہ دریافت کیا کہ ہماری اپنی قومی سکیورٹی کے حوالے سے سوچ خود کو تسلی دینے کے لیے بہت زیادہ بلند بانگ دعوئوں پر مبنی ہے جس کی جڑیں اس یقین میں پیوست ہیں کہ ہم نے ممکنہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے وسائل درست سمت میں لگائے ہیں۔ دونوں ہی معاملات میں ہم اپنے اقدامات سے پیدا ہونے والی صورتِ حال اور دشمن کی طاقت کا درست طور پر اندازہ لگانے میں ناکام رہے۔‘
پرل ہاربر پر جاپانی حملے کے حوالے سے یوں تو بہت سے نظریات مقبولِ عام ہیں اور کچھ تاریخ دان جنگ عظیم میں امریکہ کے ’پچھلے دروازے‘ سے داخل ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔
انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق یہ نقطۂ نظر رکھنے والے تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ صدر فرینکلین ڈی روزویلٹ امریکی عوام کی مخالفت کے باعث جنگ میں براہِ راست حصہ لینے اور برطانیہ کی یورپ میں نازیوں کی فتح میں مدد کرنے کے حوالے سے گریز پا تھے جنھوں نے اس بنا پر بحرالکاہل میں حالات ایسے بنا دیے جو سات دسمبر 1941 کو پرل ہاربر پر جاپانی حملے کی وجہ بنے، اور یوں امریکہ برطانیہ کی جانب سے جنگ میں حصہ لینے پر مجبور ہو گیا۔
اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ پرل ہاربر پر حملے کے بعد بربریت کے ایک ایسے دور کا آغاز ہوا جو اگلے چار سال جنگِ عظیم دوم کے پریشان کن اختتام تک جاری رہا۔
یہ ذکر کرنا بھی ازبس ضروری ہے کہ امریکی تاریخ میں پرل ہاربر ایک ایسا سانحہ تھا جس کا امریکیوں نے سات دسمبر کی صبح تک تصور بھی نہ کیا تھا۔ جدید تاریخ میں جاپان کا یہ حملہ اگرچہ کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے مگر اس کے بعد شروع ہوئی امریکی جارحیت نے جاپان کے عوام کو وہ زخم دیا جس سے آج بھی لہو رس رہا ہے۔