الیکشن کے لیے اتحادیوں کے ساتھ سِیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوئی: ایم کیو ایم
الیکشن کے لیے اتحادیوں کے ساتھ سِیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوئی: ایم کیو ایم
منگل 12 دسمبر 2023 16:21
زین علی -اردو نیوز، کراچی
خالد مقبول صدیقی کہا کہ ’کراچی کیا اب لوگوں کو سیاسی طور پر بھی پالے گا؟‘ (فوٹو: سکرین گریب)
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ کراچی کے وسائل کے بعد سیاسی جماعتیں اب کراچی کے مینڈیٹ پر بھی نظریں جما رہی ہیں۔
منگل کو کراچی میں اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے واضح کیا ہے کہ ’سندھ میں عام انتخابات میں سِیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوئی ہے، سیاسی جماعتوں کی کراچی کے وسائل کے بعد اب نظریں کراچی کی سیاست پر ہیں۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اسے کراچی میں حصہ ملے۔‘
انہوں نے سندھ میں ایم کیو ایم سے اتحاد کرنے والی جماعتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کیا اب لوگوں کو سیاسی طور پر بھی پالے گا؟
پاکستان مسلم لیگ ن، جی ڈی اے اور جے یو آئی ف سے ملاقاتوں میں طے پانے والے اتحاد کے سوال کے جواب میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ’انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کی ملاقاتوں کا سلسلہ معمول کی بات ہے، انتخابات لڑنے کی حکمت عملی سمیت دیگر معاملات پر گفتگو ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان نے ابھی تک کسی بھی سیاسی جماعت سے مل کر الیکشن لڑنے یا نہ لڑنے کی کمٹمنٹ نہیں کی ہے۔‘
ایم کیو ایم پاکستان سے مسلم لیگ ن نے کراچی میں کن نشستوں کا مطالبہ کیا ہے؟ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ نے اس معاملے میں بات کرنے سے گریز کیا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی رابطہ کمیٹی کے ایک سینیئر رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’مسلم لیگ ن نے کراچی کے پانچ علاقوں کی نشستوں پر حمایت مانگی ہے۔ ان علاقوں میں شاہ فیصل کالونی عظیم پورا، بلدیہ ٹاؤن رانگڑ پاڑہ، رشید آباد، کیماڑی اور سائٹ ایریا شامل ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ علاقے نئی حلقہ بندیوں کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے اکثریتی علاقوں میں شامل ہیں۔ اس لیے ان نشستوں پر ایم کیو ایم پیچھے نہیں ہٹ سکتی ہے۔
علاقوں کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا شاہ فیصل ٹاؤن کے عظیم پورا، شمع سینٹر سمیت دیگر علاقوں میں مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک ضرور موجود ہے، لیکن نئی حلقہ بندیوں کے بعد اس علاقے میں شاہ فیصل کالونی، کورنگی اور لانڈھی کے علاقے بھی شامل ہیں اور ایم کیو ایم کے مضبوط علاقے ہیں، جہاں متحدہ کے ووٹر مسلم لیگ ن سے زیادہ ہیں۔
’اسی طرح بلدیہ ٹاؤن سے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما سید مصطفی کمال نے الیکشن لڑنا ہے، اس لیے اس علاقے پر بھی بات نہیں ہوسکتی۔ ماضی میں سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اس علاقے سے الیکشن لڑے تھے، لیکن کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔‘
سائٹ ایریا کی نشست کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ نئی حلقہ بندی کے بعد سائٹ ایریا کی سیٹ اورنگی ٹاؤن سے جا ملی ہے، اس حلقے سے سابق وفاقی وزیر سید امین الحق کامیاب ہوئے تھے اور یہ متحدہ کی شہر میں کنفرم نشستوں میں سے ایک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح دوسری نشستوں پر بھی مسلم لیگ ن کو زمینی حقائق سے آگاہ کیا ہے کہ ایم کیو ایم کے لیے ان علاقوں میں سمجھوتہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارا پہلا مطالبہ ہے کہ صاف شفاف انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔ سندھ میں الیکشن کمیشن کے عملے پر ہمیں تحفظات ہیں۔‘
پیپلز پارٹی پر تنقید کے تیر چلاتے ہوئے کہا کہ ’سندھ میں پیپلز پارٹی کے پالے گئے اہلکار انتخابات کے نتائج کا اعلان کریں گے کہ کون سی جماعت کہاں سے جیتی ہے، پیپلز پارٹی نے گذشتہ 15 سالوں میں اپنے من پسند افراد کو عہدوں پر تعینات اسی لیے کیا ہے تاکہ ایسے موقعوں پر ان کا استعمال کیا جائے اور انتخابات کے نتائج اپنی مرضی کے مطابق مرتب کیے جائیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سندھ میں الیکشن کمیشن کا عملہ آلودہ ہے۔ اگر عوام سے ووٹ کا حق بھی چھینا جائے گا تو عوام پھر بہت سے حق آپ سے چھین لیں گے۔‘