Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برے لوگوں کو بچانے کے لیے اداروں کو بدنام کرنے کا فیشن چل پڑا ہے: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی جج پر اعتراض ہے تو ابھی سے بتا دیں کیونکہ بعد میں مسئلہ ہو جاتا ہے۔ فوٹو: اردو نیوز
پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جمہوریت کا زمانہ ہے اور اب عدالت عظمیٰ میں بھی جمہوریت آ گئی ہے اگر وہ چاہیں بھی تو مرضی کے بینچ نہیں بنا سکتے۔ 
انہوں نے کہا کہ  ’اب آپ کو شروع سے کیس چلانا ہو گا یہ وکیل کا نقصان ہو گا۔‘
جمعرات کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برطرف جج شوکت عزیز صدیقی بنام وفاقی حکومت کے مقدمے میں اُن کے وکیل حامد خان سے مکالمہ میں کہا کہ بینچ کی تبدیلی دیگر ججز کی مشاورت سے کی گئی جو کمیٹی کا حصہ ہیں۔
وکیل حامد خان نے بتایا کہ شوکت صدیقی کی یہ پٹیشن آخری بار جون 2022 میں سنی گئی تھی۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس کو جسٹس عمر عطا بندیال، سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، مظہر عالم میاں خیل اور سجاد علی شاہ بھی سُن چکے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’آج کل افسوس یہ ہے کہ فون پکڑ لو تو صحافی بن جاتے ہیں اور یوٹیوب چینل بنا لیتے ہیں، یہ صحافت نہیں ہے، صحافت بہت اعلیٰ درجے کی بات ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بینچ کیوں بدلا ہے اس کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں کہ اب بینچ بنانے کا معاملہ کمیٹی کے پاس گیا تھا اور وہاں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چونکہ کیس کو بہت عرصہ ہو گیا اس لیے وہ اس بینچ میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’تو ہم نے بینچ میں سے کسی کو ہٹایا نہیں، ہم کوشش کرتے ہیں کہ اتفاق رائے سے چلیں اور اگر ایسا ممکن نہیں ہو پاتا تو جمہوری انداز میں چلیں۔ کبھی ایک طرف ہو جاتا ہے اور کبھی دوسری طرف مگر اس بینچ کی تشکیل کے معاملے میں اتفاق رائے تھا کیونکہ وہ دونوں ججز بینچ میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔‘
انہوں نے وکیل حامد خان سے کہا کہ ’اب آپ کو شروع سے کیس چلانا ہو گا یہ وکیل کا نقصان ہو گا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی جج پر اعتراض ہے تو ابھی سے بتا دیں کیونکہ بعد میں مسئلہ ہو جاتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’آج کل ویسے بھی اعتراض کا زمانہ ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آج کل جمہوریت کا زمانہ آ گیا ہے، کچھ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ موبائل فون کے ذریعے وہ صحافی بن گئے ہیں اُن کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پر فیصلہ کر لیا ہے اور ہم جمہوریت کی جانب گامزن ہیں اور یہاں سپریم کورٹ میں بھی جمہوریت شروع ہو گئی ہے۔‘
وکیل حامد خان نے کہا کہ ’خدا کرے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’قانون ہے، اب میں چاہوں بھی تو مرضی کے بینچ نہیں بنا سکتا۔‘
حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ جمہوریت کا ذکر کیا ہے تو اس وقت جمہوریت بڑی مشکل حالات میں ہے، خدا کرے کہ جمہوریت چلتی رہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’چلیں آپ کی مدد سے بڑھتی رہے گی۔‘ 
وکیل حامد خان نے کہا کہ کارروائی کا فورم سپریم جوڈیشل کونسل تھا وہاں کسی کو فریق نہیں بنایا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ شوکاز نوٹس کے جواب میں دو افراد کا نام لیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی کو سنے بغیر کیسے اس کے خلاف فیصلہ دے دیں، جن افراد پر الزام ہیں اُن کا جواب بھی آنا چاہیے۔
’ادارے برے نہیں ہوتے، لوگ برے ہوتے ہیں۔ اداروں کو لوگ برا کرتے ہیں۔‘
’عدلیہ کو برا کہیں گے تو سارے جج آ جائیں گے۔ ملک کی تباہی جو ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم شخصیات کو برا بھلا نہیں کہتے اداروں کو برا کہتے ہیں۔‘
’ادارے تو وہی رہتے ہیں لوگ چلاتے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اب آپ کے پاس موقع ہے کہ فریق بنائیں۔ جس کے خلاف بات کر رہے ہیں اُن کو فریق بنانا ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آپ بار بار ایک شخص کا نام لے رہے ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا معذرت خواہ ہیں۔ جس پر الزام لگا رہے ہیں اُن کو سامنے آنے دیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ اداروں کو بدنام کرنے کا فیشن چل پڑا ہے، برے لوگوں کو بچانا چاہتے ہیں۔
وکیل حامد خان کو درخواست میں جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو فریق بنانے کی مہلت دیتے ہوئے برطرف جج شوکت عزیز کی فیصلے کے خلاف اپیل کل تک ملتوی کر دی گئی۔

شیئر: