پاکستان کی سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت منظور کر لی ہے۔
جمعے کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر سماعت قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ بینچ کا حصہ ہیں۔
دوران سماعت قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ ’وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سائفر کے معاملے پر عمران خان کو پھنسایا اور خود خاموش رہے۔‘
مزید پڑھیں
-
سائفر کیس، عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر فردِ جرم عائدNode ID: 805841
پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سائفرکے خفیہ کوڈز کبھی سابق وزیراعظم کے پاس تھے ہی نہیں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزارت خارجہ سائفر کا حکومت کو بتاتی ہے تاکہ خارجہ پالیسی میں مدد مل سکے۔
جبکہ جسٹس منصور نے کہا کہ ’آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا مقصد ہی یہی ہے کہ حساس معلومات باہر کسی کو نہ جا سکیں۔ سفارتی معلومات بھی حساس ہوتی ہیں لیکن ان کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔‘
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر اسد مجید نے سائفر حساس ترین دستاویز کے طور پر بھیجا تھا۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’اس بات پر تو آپ متفق ہیں کہ حساس معلومات شیئر نہیں ہو سکتیں۔‘
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ ’دیکھنا یہی ہے کہ حساس معلومات شیئر ہوئی بھی ہیں یا نہیں؟ سابق وزیراعظم کے خلاف سزائے موت یا عمرقید کی دفعات عائد ہی نہیں ہوتیں۔‘
قائم مقام چیف جسٹس پاکستان نے کہا ’سائفر کسی سے شیئر نہیں کیا لیکن اسے آن ائیر تو کیا ہی گیا ہے۔‘
سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ وزارت خارجہ سے سائفر اعظم خان کو بطور پرنسپل سیکریٹری موصول ہوا تھا۔ جس اجلاس میں سائفر سازش منصوبہ بندی کا الزام ہے وہ 28 مارچ 2022 کو ہوا۔ چالان کے مطابق جس جلسے میں سائفر لہرانے کا الزام ہے وہ 27 مارچ 2022 کو ہوا تھا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ’اصل سائفر تو وزارت خارجہ میں ہے، وہ باہر گیا ہے تو یہ دفترخارجہ کا جرم ہے۔ سائفر کو عوام میں زیربحث نہیں لایا جا سکتا۔‘
![](/sites/default/files/pictures/December/36481/2023/346t679-preview.jpg)
وکیل سلمان صفدر نے بتایا شاہ محمود قریشی نے تقریر میں کہا کہ ’وزیراعظم کو سازش کا بتا دیا ہے، حلف کا پابند ہوں۔ اس بیان کے بعد شاہ محمود قریشی 125 دن سے جیل میں ہیں۔‘
قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ’وزیر خارجہ خود سمجھدار تھے۔ سمجھتے تھے کہ کیا بولنا ہے کیا نہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ بتا نہیں سکتا اور وزیراعظم کو پھنسا دیا۔ وزیر خارجہ نے کہہ دیا کہ آپ جانیں اور وہ جانیں، شاہ محمود خود بچ گئے اور عمران خان کو کہا کہ سائفر پڑھ دو۔‘
سلمان صفدر نے کہا کہ ’بانی پی ٹی آئی نے بھی پبلک سے کچھ شئیر نہیں کیا تھا۔ اگر سائفر پبلک ہو ہی چکا ہے تو پھر سائفر ٹرائل ان کیمرا کیوں چاہیے پراسیکیوشن کو؟‘ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ’کس بنیاد پر پراسیکیوشن سمجھتی ہے کہ ملزمان کو زیرحراست رکھنا ضروری ہے؟‘
سپریم کورٹ نے فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی درخواست منظور کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت معاملہ عمران خان کا نہیں بلکہ عوامی حقوق کا ہے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ ’پاکستان امریکہ تعلقات خراب ہونے سے کسی اور ملک کا فائدہ ہوا۔ اس کی تفتیش کیسے ہوئی؟ تعلقات خراب کرنے کا تو ایف آئی آر میں ذکر ہی نہیں ہے۔‘
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ’کیا وزرائے اعظم کو وقت سے پہلے باہر نکالنے سے ملک کی جگ ہنسائی نہیں ہوتی؟ کیا وزرائے اعظم کو وقت سے پہلے ہٹانے پر بھی آفیشل سیکریٹ ایکٹ لگے گا؟‘
پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے کہا سائفر سے انڈیا سمیت دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی۔ عدالت آرٹیکل 184/3 کے تحت فوجداری مقدمے کو نہیں دیکھ سکتی۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ ضابطہ فوجداری کی بنیاد پر بنیادی حقوق نا دیکھ سکے؟
وکیل شاہ خاور نے کہا کہ ’عدالت کا اختیار ہے کہ بنیادی حقوق دیکھے۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اسد مجید کے بیان میں کہیں نہیں لکھا کہ کسی دوسرے ملک کو فائدہ پہنچا ہے۔ عدالت سائفر پبلک کرنے کو درست قرارنہیں دے رہی لیکن بات قانون کی ہے۔ سزائے موت کی دفعات عائد کرنے کی بنیاد کیا ہے وہ واضح کریں۔ ابھی تک کسی گواہ کے بیان سے ثابت نہیں ہو رہا کہ کسی غیرملکی طاقت کو فائدہ ہوا ہے۔‘
جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ ’ایک طرف آپ کہتے ہیں مقدمہ ان کیمرا چلے گا لیکن گواہان کے بیان پڑھنا شروع ہوگئے ہیں۔ جس پر پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا انڈیا میں سائفر لہرانے پر بہت واویلا ہوا۔‘
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا ’کل بلوچ فیملیزکے ساتھ جو ہوا اس پر کیا کچھ واویلا نہیں ہوا ہو گا؟ جس پر پراسیکیوٹر رضوان عباسی کا کہنا تھا دوطرفہ تعلقات متاثرہونے سے دشمن کو فائدہ ہو گا۔‘
بعد ازاں عدالت نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انھیں مچلکے جمع کروانے کی ہدایت کر دی۔
اس کیس میں ہائی کورٹ نے ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
![](/sites/default/files/pictures/December/36481/2023/33tn48e-preview.jpg)