سیریل کلر خاتون جس نے پورے گھر کو نذرِآتش کر کے ساس، سسر اور نند کو قتل کیا
سیریل کلر خاتون جس نے پورے گھر کو نذرِآتش کر کے ساس، سسر اور نند کو قتل کیا
منگل 2 جنوری 2024 5:46
ادیب یوسفزئی -اردو نیوز
پولیس کے مطابق، ابتدائی طور پر ہمیں یہ لگا کہ آگ غالباً شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی ہوگی لیکن وہاں بجلی کی تاریں محفوظ تھیں۔ (فائل فوٹو: پنجاب پولیس)
یہ سنہ 2009 کی بات ہے جب عادل ولد افتخار حسین شاہ نے ملازمت کی تلاش میں لاہور سے راولپنڈی کا رُخ کیا۔
عادل کی راولپنڈی میں کام کی تلاش کے دوران وقار نامی شخص سے ملاقات ہوئی جو کچھ عرصہ انگلینڈ میں رہ کر پاکستان لوٹا تھا۔ وہ اپنی بیوی فرح کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا تھا۔
اُس کے پاس دولت کی کوئی کمی نہ تھی۔ وقار نے عادل کو 18 سو روپے ماہانہ پر اپنی دکان پر ملازم رکھ لیا اور وہ چوں کہ کم عمر تھا تو اسے گھر پر بھی کام کے لیے رکھ لیا۔
ایک سال مسلسل کام کرنے کے دوران عادل کی نظریں وقار کی دولت پر جمی رہیں۔ اس نے اس دوران فرح کے ساتھ بھی دوستی کر لی اور اُسے اپنے جال میں پھنسا لیا۔
سنہ 2010 میں عادل نے اپنی مالکن فرح کے ساتھ مل کر اُس کے شوہر وقار کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔
لاہور کے علاقے چوہنگ کے ایس ایچ او ناصر حمید اس واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ایک روز عادل اور فرح نے وقار کو نشہ آور گولیاں کھلائیں اور اس کے منہ پر سرہانہ رکھ کر اسے قتل کر دیا۔ فرح نے اس پوری واردات کی ویڈیو بھی بنائی اور پولیس کو یہ کہا کہ اُس کے شوہر کی موت دم گھٹنے کے باعث ہوئی ہے۔‘
وقار اکلوتا تھا اور اس کی والدہ بھی ضعیف العمر تھیں جس کے باعث مقدمہ جلد ہی داخلِ دفتر کر دیا گیا۔
انسپکٹر ناصر حمید نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’فرح اور عادل نے آپس میں شادی کر لی۔ عادل نے اپنے شناختی کارڈ میں نام تبدیل کر کے اپنا نام وقار رکھ لیا اور مقتول وقار کی ساری جائیداد اپنے نام کر لی۔ وہ دونوں اس دوران راولپنڈی میں ہی قیام پذیر رہے۔‘
’عادل نے وقار بن کر ہتھیائی گئی دولت اپنے گھر والوں کے نام کرنی شروع کر دی۔ عادل نے گاڑی اپنے والد کے نام کر دی اور راولپنڈی میں گھر بھی فروخت کر دیا اور یوں اس نے مقتول وقار کی ساری دولت ہتھیا لی۔‘
پولیس کی حراست میں فرح نے اپنے جرم کا اعتراف کرنے کے ساتھ انکشاف کیا کہ اس نے اپنے پہلے شوہر کو بھی قتل کیا تھا۔ (فوٹو: پنجاب پولیس)
دوسری جانب فرح دولت کے یوں ہاتھ سے نکل جانے پر پریشان تھی اور وہ اب عادل کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہنے لگی تھی۔
فرح نے عادل کے والد سے بارہا رابطہ کیا کہ وہ اپنے نام کروائی گئی دولت واپس کر دیں لیکن عادل کے والد نہیں مان رہے تھے۔ اس دوران کئی برس گزر گئے۔
فرح کی چار بیٹیاں تھیں۔ عادل اور فرح ایک ساتھ رہتے تھے لیکن ایک روز فرح کو معلوم ہوا کہ عادل نے اس کی بڑی بیٹی (عادل کی سوتیلی بیٹی) کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔
عادل اور فرح کے مابین اس بات کو لے کر جھگڑے ہونے لگے اور فرح کو اب اپنی بیٹیوں کی فکر کھائے جا رہی تھی۔
فرح نے لاہور جا کر عادل کے والدین سے مل کر اپنی جائیداد واپس اپنے نام کروانے کے بارے میں بھی سوچا۔
اس دوران عادل کے چھوٹے بھائی علی کی شادی ہو گئی جو چھ مہینے ہی قائم رہ سکی اور اس نے اپنی بیوی نورین فاطمہ کو طلاق دے دی اور اس کے زیورات اپنے پاس رکھ لیے۔
نورین کا ایک رشتہ دار ارسلان شاہ اوکاڑہ کا رہائشی تھا۔ اس دوران فرح کا ارسلان اور نورین فاطمہ سے رابطہ قائم ہوا۔
پولیس کے مطابق ’فرح نے اپنی دیورانی نورین فاطمہ اور اس کے رشتہ دار ارسلان شاہ کے ساتھ مل کر اپنے سسر، ساس اور نند کو قتل کرنے اور گھر لوٹنے کا منصوبہ بنایا۔‘
’فرح ارسلان کے ساتھ تیسری شادی بھی کرنا چاہتی تھی۔ فرح نے ارسلان کو نیند کی گولیاں لانے کا کہا اور عادل سے اپنی بہن کے گھر جانے کا بہانہ کر کے گھر سے نکلی۔ فرح وقوعہ سے تین روز قبل لاہور آئی اور اپنے سسرال رہنے لگی۔‘
فرح نے 30 دسمبر کی رات تک اپنے سسرال کے ہاں قیام کیا۔ اس دوران ارسلان شاہ لاہور آ گیا تھا جبکہ فرح کے ساتھ اس کی بیٹی ارسم فاطمہ بھی آئی تھی اور اس سارے منصوبے میں نورین فاطمہ بھی شامل رہی۔
پولیس کے مطابق فرح ارسلان کے ساتھ تیسری شادی بھی کرنا چاہتی تھی۔ (فوٹو: ایکس)
30 دسمبر کی رات 10 بجے کے قریب ارسلان گھر میں داخل ہوا اور رات ایک بج کر 25 منٹ تک اندر موجود رہا۔
پولیس افسر ناصر حمید کا کہنا تھا کہ ’ان چاروں نے سب سے پہلے عادل کے والد افتخار حسین، والدہ ثمینہ افتخار اور بڑی بہن ارم شہزادی کو نیند کی گولیاں کھلائیں جس کے بعد ارسلان نے ان پر پیٹرول چھڑک کر تینوں کو آگ لگا دی۔
وہ واردات کے بعد گھر سے سارا سونا اور نقدی لوٹ کر فرار ہو گئے۔ کچھ ہی دیر میں گھر سے شعلے اٹھے تو 1122 کے رضا کار اور پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی۔
پولیس کے مطابق ابتدائی طور پر انہیں یہ لگا کہ ’آگ غالباً شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی ہو گی لیکن وہاں بجلی کی تاریں محفوظ تھیں۔ اس آگ کی وجہ سے پورا گھر اور تینوں مقتولین جل گئے تھے۔‘
ایس پی صدر ڈویژن سدرہ خان، اے ایس پی کامل مشتاق اور ایس ایچ او ناصر حمید جائے وقوعہ پر پہنچے۔
تینوں افراد کی لاشیں پوسٹ مارٹم کے لیے مردہ خانے منتقل کی گئیں اور مدعی عادل جو اب وقار حسین شاہ بن چکا تھا، نے نامعلوم افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کروا دیا۔
انہوں نے مقدمے میں الزام عائد کیا کہ ’ان کے گھر والوں کو نامعلوم افراد نے قتل کرنے کے بعد آگ لگائی ہے جس کے بعد واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور سید علی ناصر رضوی نے ایس پی صدر ڈویژن سدرہ خان کو ملزموں کی گرفتاری کا ٹاسک سونپا جنہوں نے ایس ایچ او ناصر حمید کے ہمراہ ٹیم تشکیل دے کر کارروائی کا آغاز کیا۔
پولیس افسر ناصر حمید کے بقول جب علاقے کی سی سی ٹی وی فوٹیج نکالی گئی تو وہاں رات کے وقت گھر سے چند مرد و خواتین نکل رہے تھے۔ اہل محلہ کو جب ویڈیو دکھائی گئی تو انہوں نے بتایا کہ یہ ان کی بہو ہے. جس کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ملزمہ فرح، فرح کی بیٹی ارسم فاطمہ اور نورین فاطمہ کو گرفتار کر لیا۔ پولیس نے اوکاڑہ میں چھاپہ مار کر ارسلان شاہ کو بھی حراست میں لے لیا۔
پولیس کی حراست میں فرح نے اپنے جرم کا اعتراف کرنے کے علاوہ یہ انکشاف بھی کیا کہ اس سے قبل اس نے عادل کے ساتھ مل کر اپنے پہلے شوہر کو بھی قتل کیا تھا۔