Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

موبائل فون: دورِ حاضر کے ’جامِ جَم‘ کا لیب سے جیب تک کا سفر

ٹیلی فون 1876 میں الیگزینڈر گراہم بیل نے ایجاد کیا تھا (فوٹو: فرسٹ پوسٹ)
خط کو کبھی ’آدھی ملاقات‘ کہا جاتا تھا اس حساب سے ٹیلی فون کو پون ملاقات کہنا بنتا ہے، تاہم موبائل پر خصوصاً ویڈیو کال کو کیا کہا جائے آپ اس پر سوچیے اور ساتھ ہی ہمارے فلاسفر دوست کا قول بھی سنیے کہ ’فون نے فاصلے مٹائے اور دور بیٹھے لوگوں کو قریب کیا مگر موبائل نے ساتھ بیٹھے افراد کو بھی ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔‘ اگر آپ کو فوری طور پر اس کا جواب نہ ملے تو کسی روز دوستوں کی محفل میں اس کا مشاہدہ کر لیجیے گا۔
خیر بات ہو رہی تھی فون کی، جس کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ الیگزینڈر گراہم بیل نے اس کو 1876 میں ایجاد کیا اور اسی سال 10 مارچ کو اس پر پہلی کال کی گئی جس کے الفاظ تھے ’مسٹر واٹسن، میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں، یہاں آ جائیں۔‘ تاہم گراہم بیل کو اپنی آواز کے اسی طرح دوسری طرف پہنچ جانے کا زیادہ یقین نہیں تھا، مگر جب ان کے اسسٹنٹ تھامس واٹسن، جنہیں کال کی گئی تھی، نے آ کر انہیں یہی الفاظ بتائے تو وہ تو اچھلے ہی تھے دنیا کے ہاتھ بھی ایک ایسی چیز لگ گئی جسے غالب نے شاید خیال ہی میں ’جامِ جم‘ کہا تھا اور اقبال کا اشارہ بھی یہ کہتے ہوئے ’محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی‘ اس کی طرف ہی ہو۔
اس آواز کے ساتھ ہی دنیا پر کُھلا کہ تار چھیڑنے پر صرف سُر ہی پیدا نہیں کرتے بلکہ آپ کی آواز جو چاہے سُریلی نہ بھی ہو، کہیں سے کہیں پہنچا سکتے ہیں۔
ہیلو سے ہائے تک
ٹیلی فون پر ہیلو کے لفظ کے حوالے سے کئی کہانیاں مشہور ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہیلو گراہم بیل کی گرل فرینڈ کا نام تھا اسی لیے اس کا استعمال کیا تاہم یہ قرین قیاس اس لیے نہیں لگتا کہ ان کی گرل فرینڈ کا نام ماہیل گارڈینر ہوبرڈ تھا اور قوت سماعت سے محروم تھیں اس لیے ان سے فون پر بات ہو ہی نہیں سکتی تھی۔

پرانے فون کی ایجاد کے 99 برس بعد موبائل فون پر پہلی کال ممکن ہوئی (فوٹو: ٹیلی فون میوزیم)

جب آواز نے لہروں پر کمند ڈالی
آواز کو ریڈیو کی شکل میں تاروں سے ہوا کے دوش پر سوار ہو کر سفر کرنے میں اگلے چند ہی برس لگے تاہم فون کے تناظر میں ایسا 99 برس بعد اس وقت ممکن ہوا جب تین اپریل کو ایک امریکی انجینیئر نے حریف کمپنی کے سائنسدان کو اس سے کال کی اور بقول ان کے ’دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔‘
موبائل فون کا سفر کب شروع ہوا؟
گراہم بیل کی ایجاد کے تار دنیا بھر میں بچھتے جا رہے تھے، لوگ اس کو ایک ایسی چیز سمجھ رہے جو ٹیکنالوجی کی انتہائی شکل تھی، ٹیلی فون امریکہ سے نکل کر کئی ملکوں تک پھیل چکا تھا مگر انہی دنوں امریکہ کے شہر شکاگو میں رہنے والا ایک بچہ، جو اپنے خاندان کے ساتھ یوکرین سے وہاں منتقل ہوا تھا، سوچ رہا تھا کہ ’یہ ٹیکنالوجی کی انتہا نہیں۔‘ اس کے ذہن میں کچھ مختلف خیال موجود تھا۔ وہی بچہ بعد میں مارٹن کوپر کے نام سے جانا گیا۔

امریکی انجینیئر مارٹن کوپر نے 1973 میں پہلا موبائل فون بنایا (فوٹو: اے ایف پی)

مارٹن کوپر کون ہیں؟
یہ ایک امریکی انجینیئر ہیں جو آج بھی حیات ہیں اور ان کی عمر 95 برس کے قریب ہے۔
انہوں نے 1950 میں ایلینائز انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے گریجویشن اور بعدازاں الیکٹریکل انجینیئرنگ میں ماسٹرز کیا۔
خواب کو حقیقت بنانے کی تگ و دو
مارٹن کوپر نے 1954 میں جب موٹورولا کمپنی میں ملازمت شروع کی تو ان کے ذہن میں وہی آئیڈیا موجود تھا، جو انہوں نے کمپنی حکام کے ساتھ شیئر کیا جس کو ’بہت دور کی کوڑی‘ سمجھا گیا تاہم انہیں اس پر کام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔
موبائل سے قبل انہوں نے شکاگو پولیس سٹیشن کے لیے وائرلیس ریڈیو سسٹم  بھی بنایا جو بعدازاں واکی ٹاکی میں ڈھلا۔
اس کے ساتھ دیگر کمپنیوں نے بھی تار کے بغیر آلہ جات کی تیاری پر کام شروع کر دیا، جس سے مارٹن کوپر کو خدشہ محسوس ہوا کہ ان کا موبائل یا سیل فون بنانے کا خیال کہیں کوئی اور نہ اُچک لے اس لیے انہوں نے کام اور تجربات کی رفتار بڑھا دی۔

مارٹن کوپر موبائل کے آج کے صارفین سے زیادہ خوش نہیں اور انہیں ‘کبھی نظریں ہٹا بھی لیا کریں‘ کا مشورہ دیتے ہیں (اینڈرائڈ ہیڈلائنز)

گاڑی میں استعمال ہو سکنے والا موبائل
موٹورولا کی حریف کمپنی بیل کے انجینیئرز نے دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد ایک ایسا موبائل فون بنانے کا آئیڈیا پیش کیا جو گاڑی کے اندر استمعال کیا جا سکے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس کے لیے جو آلات استعمال ہوں گے ان کو انفرادی طور پر اٹھا کر لے جانا ممکن نہیں تھا۔ یوں کچھ عرصہ بعد وہ ایسا ہی ایک موبائل بنانے میں کامیاب بھی ہوئے، جس کی بیٹری اور دوسرا ضروری سامان ساتھ والی سیٹ پر پڑا رہتا اور تبھی اس پر بات ہو سکتی۔
’یہ تو کوئی موبیلیٹی نہیں‘
مارٹن کوپر کو جب اس کے بارے میں معلوم ہوا تو ان کے منہ سے یہی الفاظ نکلے کیونکہ ان کا موبیلیٹی کا تصور اس سے بہت دور تھا، جس کی جانب وہ دھیرے دھیرے بڑھ رہے تھے۔
دنیا کا پہلا موبائل فون
مارٹن کو موٹورولا کمپنی کی جانب سے جتنے بھی وسائل دستیاب تھے وہ انہوں نے اپنی تحقیق میں لگا دیے اور 50 سال قبل ایک ڈائنا ٹیک فون بنانے میں کامیاب ہوئے۔
اس کے بارے میں کوپر کہتے ہیں کہ ’اس کا وزن ایک کلو سے زائد تھا اور اس کی بیٹری 25 منٹ تک ہی کام کرتی تھی۔‘

موبائل کئی مراحل طے کرتا ہوا آج ایک سمارٹ فون کی شکل میں دستیاب ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق ’اصل مسئلہ بیٹری ٹائمنگ کا نہیں تھا بلکہ وزنی ہونے کا تھا اور اس کو 25 منٹ تک مسلسل اٹھائے رکھنا مشکل تھا۔‘
موبائل پر پہلی کال
مارٹن کوپر اپنی پہلی کال کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں نے اس سے بیل کمپنی کے انجینیئر ڈاکٹر جوئل اینگل کو کال ملائی اور بتایا کہ میں مارٹن کوپر بول رہا ہوں اور ایک ایسے موبائل فون سے بات کر رہا ہوں جس کو میں نے ایک ہاتھ سے اٹھایا ہوا ہے۔‘
ان کے مطابق ’دوسری جانب خاموشی چھا گئی۔ میرا خیال ہے کہ وہ دانت پیس رہا تھا۔‘
ابتدائی موبائل فونز کی قیمت 5000 ڈالر تک تھی۔
کوپر کا کہنا ہے کہ اس موبائل فون کو خریدنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے اس کے لیے جائیدادیں بیچ ڈالی تھیں۔
’اگرچہ آج موبائل سب کی زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے تاہم اس کا فائدہ اٹھانے میں ہم ابھی بھی ابتدائی مراحل میں ہیں۔ مسقتبل میں اس کو اس تعلیم اور صحت کے میدانوں میں اتقلابی تبدیلیوں کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔‘

دنیا میں سمارٹ موبائل فون کا استعمال روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

’کبھی نظریں ہٹا بھی لیا کریں‘
برسہابرس کی عرق ریزی کے بعد موبائل بنانے والے اپنی ایجاد پر خوش تو ہیں مگر اس کو استعمال کرنے والوں سے ناخوش دکھائی دیتے ہیں۔
30 مارچ 2023 کو فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو انٹرویو میں مارٹن کوپر نے صارفین کو مشورہ دیا کہ ’آپ ہر وقت سکرین کو ہی دیکھتے رہتے ہیں کبھی نظریں ہٹا بھی لیا کریں۔‘
’بابائے موبائل فون‘ کہلائے جانے والے مارٹن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’آج ہماری جیب میں جو صاف ستھرا آلہ موجود ہے یہ بہت صلاحیت کا حامل ہے لیکن فی الحال اس نے ہم کو کسی حد تک ’جنونی‘ بنا رکھا ہے۔
’مجھے یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے جب کوئی راستے پر چلنے والا موبائل پر نظریں گاڑے چلا جا رہا ہو۔ وہ ذہنی طور پر کہیں اور ہوتے ہیں۔‘

گزری تین  دہائیوں کے دوران دنیا میں موبائل کا استعمال تیزی سے بڑھا ہے (فوٹو: یو ایس ٹوڈے)

 انہوں نے مذاقاً کہا ’لگتا ہے جب کچھ لوگ (اسی حالت میں) کسی نالے گریں گے تو شاید انہیں احساس ہو گا۔‘
مارٹن کوپر خود بھی ایپل کی گھڑی پہنتے ہیں اور آئی فون کا استعمال کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں سمجھ سکتا ہوں کہ میں موبائل کو آج اس طرح سے استعمال نہیں کر سکتا جس طرح میرے نواسے، نواسیاں اور پوتیاں پوتے کرتے ہیں۔‘
مارٹن کوپر کا فون کتنا سمارٹ تھا؟
مارٹن کوپر کے بنایا گئے موبائل سے صرف کال ہو سکتی تھی بعدازاں انہوں نے اس میں مزید فیچر بھی شامل کیے جن میں میسنجنگ بھی شامل تھی، تاہم آنے والے وقت میں اس میں سٹیو جابز اور ان جیسے دیگر سائنسدانوں نے حصہ ڈالا اور آج وہ ایک ایسے منی کمپیوٹر میں ڈھل چکا ہے، جو میری اور آپ کی جیب میں رہتا ہے اور شاید اسی پر ہی آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہیں۔

شیئر: