سپریم کورٹ کا نااہلی کی مدت کے تعین کے کیس میں فیصلہ محفوظ
چیف جسٹس نے کہا کہ نااہلی سے متعلق انفرادی مقدمات اگلے ہفتے سنیں گے (فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے نااہلی کی مدت کے تعین کے کیس میں فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
سیاستدانوں کی نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ’لوگوں کو طے کرنے دیں کون سچا ہے اور کون ایماندار۔‘
جمعے کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سماعت کرنے والے سات رکنی بینچ نے یہ ریمارکس دیے، جس میں جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نااہلی سے متعلق انفرادی مقدمات اگلے ہفتے سنیں گے، اس وقت قانونی اور آئینی معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔‘
وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سامنے بنیادی معاملہ اسی عدالت کا سمیع اللہ بلوچ کیس کا ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی سمیع اللہ بلوچ کیس میں سوال اٹھایا ہے۔‘
جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’آپ کے مطابق نااہلی کا ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا؟‘ وکیل نے جواب دیا کہ ’جی، ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا۔‘
وکیل کے مطابق ’سول کورٹ فیصلے پر کسی کا کوئی بنیادی آئینی حق تاعمر ختم نہیں ہوتا، کامن لا سے ایسی کوئی مثال مجھے نہیں ملی۔ کسی کا یوٹیلٹی بل بقایا ہو جب ادا ہو جائے تو وہ اہل ہو جاتا ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جز تک محدود کیوں کر رہے ہیں۔ ہم آئینی تاریخ کو، بنیادی حقوق کو نظرانداز کیوں کر رہے ہیں۔ آئین پر جنرل ایوب کے دور سے تجاوز کیا گیا۔ ہم پاکستان کی تاریخ کو بھول نہیں سکتے۔‘
قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ’پورے ملک کو تباہ کرنے والا پانچ سال بعد اہل ہو جاتا ہے۔ صرف کاغذات نامزدگی میں غلطی ہو جائے تو تاحیات نااہلی ہو سکتی ہے؟ صرف ایک جنرل نے یہ شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے؟‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’خود کو محدود نہ کریں بطور آئینی ماہر ہمیں وسیع تناظر میں سمجھائیں۔ کہا گیا کہ عام قانون سازی آئینی ترمیم کا راستہ کھول سکتی ہے، اس کا کیا مطلب ہے کہ ہم اپنی مرضی سے جو فیصلہ چاہیں کردیں؟‘
’کیا ہمارے پارلیمان میں بیٹھے لوگ بہت زیادہ سمجھدار ہیں؟ پاکستان کی پارلیمان کا جو امتحان ہے، کیا وہ دنیا کی کسی پارلیمان کا ہے؟‘
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ’الیکشن ٹریبونل پورے الیکشن کو بھی کالعدم قرار دے سکتا ہے، الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کی سزا دو سال ہے۔‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’جب آئین نے خود طے کیا کہ نااہلی اتنی ہے تو ٹھیک ہے، نیب قانون میں بھی سزا دس سال کرائی گئی، آئین وکلا کے لیے نہیں عوام پاکستان کے لیے ہے آئین کو آسان کریں۔ آئین کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی کھو دیں۔‘
سماعت کے اختتام پر تحریک انصاف کے وکیل شعیب شاہین نے اپنے دلائل میں پارلیمنٹ کی جانب سے نااہلی کی مدت کے تعین کے قانون کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ قانون سازی ایک شخص کے لیے کی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت معاملے کے قانونی و آئینی پہلو کو دیکھ رہی ہے، جلد مختصر فیصلہ سنائیں گے۔