گزشتہ ماہ دبئی میں اقوام متحدہ کی سربراہی میں کوپ 28 اجلاس کے دوران پہلی مرتبہ لگ بھگ 200 ملکوں کی حکومتوں نے زمین سے نکالے جانے والے ایندھن (فوسل فیول) پر انحصار کم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
عالمی توانائی ایجنسی کے جاری کیے بیان کے مطابق ’دنیا کے توانائی کے نظام میں گزشتہ برس شامل کی گئی رینیوایبل انرجی میں 50 فیصد دیکھا گیا۔‘
بیان میں کہا گیا کہ سولر پی وی کے ذریعے دنیا بھر میں توانائی میں تین تہائی اضافہ ہوا، اس طرح یہ 510 گیگاواٹس تک پہنچ گئی۔
عالمی ایجنسی کے مطابق چین میں گذشتہ برس سب سے زیادہ سولر انرجی پیدا کی گئی جو اُتنی توانائی کے برابر تھی جو دنیا بھر میں سنہ 2022 میں سورج کی روشنی سے پیدا کی گئی تھی۔
چین ہوا سے حاصل کی گئی توانائی میں ہر سال 66 فیصد اضافہ کر رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورپ، امریکہ اور برازیل میں بھی گذشتہ برس ریکارڈ ریونیوایبل انرجی پیدا کی گئی۔
عالمی توانائی ایجنسی کے سربراہ فاتح بیرول کے مطابق ’موجودہ پالیسیاں اور مارکیٹ کی صورتحال یہ ظاہر کرتی ہے کہ دنیا اس حوالے سے سنہ 2030 کے لیے رکھے گئے ہدف کے حصول کے راستے پر گامزن ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی تک یہ رفتار وہ نہیں کہ ہم کوپ28 کے اجلاس میں طے کردہ تین تہائی کے ہدف کو حاصل کر لیں لیکن ہم اس کے قریب ہیں۔ اور حکومتوں کے پاس ایسے وسائل ہیں کہ وہ اس فرق کو کم کر سکیں۔‘
فاتح بیرول نے کہا کہ ساحل پر ونڈ ملز اور سولر پی وی اب زمین کے نیچے سے ایندھن نکالنے کے پلانٹس لگانے سے کم خرچ ہیں اور بہت سے ملکوں میں پہلے سے لگے پلانٹس پر اخرجات سے بھی رینیوایبل انرجی کے نئے ذرائع سستے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’بین الاقوامی کمیونٹی کے لیے سب سے اہم ابھرتی ہوئی معیشتوں اور ترقی پذیر ملکوں میں رینیوایبل انرجی کے لیے قرض کی فراہمی ہونا چاہیے۔‘
عالمی ایجنسی کے سربراہ کے مطابق طے کیے گئے اہداف کے حصول کا دار ومدار اسی بات پر ہے۔