’30 ہزار تنخواہ اور 15 ہزار روپے گیس کا بل‘: صارفین کو زیادہ بل کیوں آ رہے ہیں؟
’30 ہزار تنخواہ اور 15 ہزار روپے گیس کا بل‘: صارفین کو زیادہ بل کیوں آ رہے ہیں؟
بدھ 17 جنوری 2024 10:39
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
اوگرا سال میں دو بار گیس کمپنیوں کے لیے قیمتوں کے تعین کا پابند ہے۔ (فائل فوٹو: ایکس)
اسلام آباد کے نواحی علاقے بارہ کہو کے رہائشی فضل الحق جو پیشے کے اعتبار سے نجی ادارے میں ڈرائیور ہیں اور ماہانہ 30 ہزار روپے کماتے ہیں۔ ایک برس قبل موسم سرما میں اُن کے گھر کا گیس بل زیادہ سے زیادہ تین ہزار روپے تک آتا تھا، لیکن اب گیس کی قیمتوں میں 200 فیصد تک اضافے کے بعد اُن کا بل 15 ہزارروپے آیا ہے۔
فضل الحق نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے لیے 30 ہزار کی تنخواہ میں سے 15 ہزار کا بل ادا کرنا کسی امتحان سے کم نہیں۔ اس صورت میں انہیں ادھار لے کر گھر کے دیگر اخراجات پورا کرنے پڑیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’گرمیوں کے موسم میں بجلی کا بل دینا جیب پر بھاری پڑتا تھا اب گیس کے بل ان کی کمر توڑ رہے ہیں۔‘
گیس صارفین کو زیادہ بل کیوں آ رہے ہیں؟
پاکستان کی نگراں حکومت نے گیس کی قیمتوں میں 173 فیصد تک کا بڑا اضافہ کیا ہے، لیکن اس کے باوجود صارفین کے لیے اضافہ صرف اتنا ہی نہیں رہے گا کیونکہ گیس کمپنیوں نے قیمتوں میں 137 فیصد تک مزید اضافے کے لیے بھی درخواست اوگرا میں دائر کر رکھی ہے۔
گیس کمپنیوں کی دوسری درخواست پر اوگرا اتھارٹی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر چکی ہے۔ یہ فیصلہ کسی بھی وقت منظوری کے بعد وفاقی حکومت کو بجھوا دیا جائے گا جو قیمتوں میں اضافے کی حتمی منظوری دے گی۔
گیس کی قیمت میں کتنا اضافہ ہوا
اوگرا کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق ماہانہ 25 سے 90 مکعب میٹر تک گیس کے پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے قیمت نہیں بڑھائی گئی۔ تاہم پروٹیکٹڈ صارفین کےلیے فکس چارجز 10 روپے سے بڑھا کر 400 روپے کر دیے گئے ہیں۔ نان پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کےلیے گیس کی قیمت میں 172 فیصد سے زائد اضافہ کیا گیا ہے۔
نوٹی فکیشن کے مطابق ماہانہ 25 مکعب میٹر کے صارفین کے لیے قیمت 200 سے بڑھا کر 300 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کر دی گئی ہے۔ ماہانہ 60 مکعب میٹر استعمال پر گیس کی قیمت 300 سے بڑھ کر 600 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کر دی گئی ہے۔
ماہانہ 100 مکعب میٹر گیس استعمال پر قیمت 400 سے بڑھا کر 1000 روپے، 150 مکعب میٹر استعمال پر قیمت 600 سے بڑھا کر 1200 روپے اور ماہانہ 200 مکعب میٹر گیس کے استعمال پر قیمت 800 سے بڑھا کر 1600 روپے فی ایم ایم بی مقرر کی گئی ہے۔
اوگرا نے ماہانہ 300 مکعب میٹر گیس استعمال کرنے والے صارفین کے لیے قیمت 1100 سے بڑھا کر 3000 روپے، ماہانہ 400 مکعب میٹر استعمال پر قیمت 2000 سے بڑھا کر 3500 روپے اور ماہانہ 400 مکعب میٹر سے زائد استعمال پر گیس کی قیمت 3100 سے بڑھا کر 4000 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی ہے۔
ملک بھر کے تندوروں کے لیے گیس کی قیمت 600 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو برقرار رکھی گئی ہے۔ پاور پلانٹس کے لیے گیس کی قیمت 1050 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کر دی گئی ہے۔
اس وقت سیمنٹ سیکٹر کے لیے گیس کی قیمت 4400 روپے فی ایم ایم بی ٹی، سی این جی سیکٹر کے لیے 3600 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت، برآمدی صنعتوں کے لیے 2100 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اور غیر برآمدی صنعتوں کے لیے 2200 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر ہے۔
قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافہ یکم نومبر 2023 سے نافذ العمل ہو گیا ہے۔ حکومت کو گیس کی قیمت میں اضافے سے 350 ارب روپے اضافی حاصل ہوں گے
گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کی تیاریاں
ملک کی گیس کمپنیوں یعنی سوئی سدرن اور سوئی نادرن کی جانب سے اوگرا میں گیس مزید مہنگی کرنے کی درخواست بھی دائر کی گئی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گیس فراہم کرنے والی کمپنی سوئی ناردرن نے گیس مزید 137.62 فیصد مہنگی کرنے کی درخواست دائر کی ہے جس کی باقاعدہ سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ ہو چکا ہے۔
دائر درخواست میں سوئی ناردرن نے گیس کی قیمت میں 1715 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کا اضافہ مانگا ہے۔ گیس کی موجودہ قیمت 1246 روپے49 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو سے بڑھا کر 2961 روپے 98 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کرنے کا کہا ہے۔
دوسری جانب سندھ اور بلوچستان کے گیس صارفین کے لیے بھی قیمت میں 226.18 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافہ مانگا گیا ہے۔
سوئی سدرن کی جانب سے اوگرا میں جمع کروائی گئی درخواست میں گیس کی موجودہ اوسط قیمت 1470 روپے 21 پیسے سے بڑھا کر نئی اوسط قیمت 1696 روپے 39 پیسے مقرر کرنے کا کہا گیا ہے۔ اوگرا اتھارٹی نے اس درخواست پربھی فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجہ گردشی قرضہ
پاکستان کا توانائی کا شعبہ اس وقت شدید بحران سے دوچار ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق اس وقت گیس اور بجلی کا مجموعی گردشی قرضہ 5700 ارب روپے ہے۔ اس میں صرف گیس کمپنیوں کا گردشی قرضہ تین ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
اوگرا سال میں دو بار گیس کمپنیوں کے لیے قیمتوں کے تعین کا پابند ہے۔
آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کے ترجمان عمران غزنوی نے اردو نیوز کو بتایا کہ گیس کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے مطابق اوگر سال میں دو بار یعنی مارچ، اپریل اور نومب، دسمبر میں گیس کمپنیوں کے لیے قیمتوں کے تعین کا پابند ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’سوئی گیس کمپنیوں کا بڑھتا گردشی قرضہ اور ڈالر کی بڑھتی قیمت پاکستان میں گیس قیمتوں میں اضافے کا سبب ہیں۔‘
’ماضی میں گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے نہ صرف گردشی قرضہ بڑھا بلکہ صارفین کو اس بار گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔‘