Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈاک کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟  

پوسٹل بیلٹ حاصل کرنے پر ووٹرز اپنے ووٹ کو مقررہ وقت کے مطابق ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر کو بھجوائیں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
آپ اگر پاکستان کے کسی سرکاری محکمے میں کام کرتے ہیں اور اپنے آبائی علاقے سے دور کسی اور مقام پر تعینات ہیں اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہی رہائش پذیر ہیں یا آپ انتخابات میں بطور انتخابی عملہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں تو آپ پوسٹل بیلٹ کے ذریعے اپنے حلقے کے امیدواروں کو ووٹ دینے کا حق استعمال کر سکتے ہیں۔ 
صرف یہی نہیں بلکہ اگر کوئی ووٹر معذور ہے اور الیکشن کے دن پولنگ سٹیشن پر پہنچنے سے قاصر ہے تو وہ بھی پوسٹل بیلٹ پیپر حاصل کر سکتا ہے اور اپنی پسند کے امیدوار کو بذریعہ ڈاک ووٹ ڈال سکتا ہے۔ 

پوسٹل بیلٹ پیپرز کے حوالے سے درخواستیں وصول کرنے کی آخری تاریخ

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے آئندہ عام انتخابات کے لیے ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کے لیے پوسٹل بیلٹ پیپرز کے حصول کی درخواستیں وصول کرنے کی آخری تاریخ 22 جنوری 2024 مقرر کی گئی ہے۔
پوسٹل بیلٹ کے لیے درخواست فارم الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کیے جا سکتے ہیں۔
پوسٹل بیلٹ حاصل کرنے پر ووٹرز اپنے ووٹ کو مقررہ وقت کے مطابق ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر کو بھجوائیں گے۔
حکام کے مطابق سرکاری ملازمین اپنے دفتر کے پتے سے پوسٹل بیلٹ حاصل کرنے کے لیے درخواست دیتے ہیں۔
درخواست کے ساتھ اپنی پوسٹنگ کا نوٹیفیکیشن بھی منسلک کرنا ہوتا ہے تاکہ غیرمجاز افراد پوسٹل بیلٹ حاصل نہ کر سکیں۔
الیکشن کمیشن حکام کے مطابق پوسٹل بیلٹ موصول ہونے کے بعد ووٹرز مقررہ وقت کے اندر اپنے ووٹ متعلقہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر (ڈی آر او) کو بھجوائیں گے۔ پوسٹل بیلٹ حاصل کرنے والے افراد کو پولنگ سٹیشنوں پر ذاتی طور پر ووٹ ڈالنے کا استحقاق حاصل نہیں ہو گا۔
الیکشن ایکٹ کے تحت پوسٹل بیلٹ کی وصولی کے بعد ووٹر کو باقاعدہ طور پر اپنا ووٹ ریکارڈ کرنا چاہیے اور ریکارڈ ہونے کے بعد ووٹر کو فراہم کردہ لفافے میں ریٹرننگ آفیسر کو بیلٹ پیپر پوسٹ کرنا ہو گا۔ ووٹر کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس کا ووٹ مکمل نتائج کے جمع ہونے سے پہلے پہنچ جائے۔
پوسٹل بیلٹ کی یہ شق سرکاری افسروں، مسلح افواج کے اہلکاروں، سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین اور اپنے حلقوں سے دور اور ان کے ساتھ رہنے والے اہل خانہ کو سرکاری پولنگ کے دن سے پہلے ووٹ ڈالنے کی اجازت دیتی ہے۔
اہلیت کے معیار میں زیرِحراست اور جسمانی طور پر معذور افراد بھی شامل ہیں کیونکہ ان کے پاس کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) ہے جس پر نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے جاری کردہ معذوری کا لوگو درج ہے۔

اگر کوئی ووٹر معذور ہے تو وہ بھی پوسٹل بیلٹ پیپر حاصل کر سکتا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا کام جاری ہے۔ ان کی چھپائی جوں ہی مکمل ہو جائے گی تو یہ سب سے پہلے پوسٹل بیلٹ کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں کے لیے بذریعہ ڈاک روانہ کیے جائیں گے۔

کیا پوسٹل بیلٹ انتخابی نتائج بدل سکتے ہیں؟ 

الیکشن کمیشن کا آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں پوسٹل بیلٹ کے لیے موصول ہونے والی مجموعی درخواستوں کے حوالے سے کہنا ہے کہ مجاز ووٹرز اپنے حلقے کے ریٹرننگ افسر کو درخواست دیتے ہیں، اس لیے فوری طور پر یہ بتانا ممکن نہیں ہے کہ اس سلسلے میں کتنی درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔
تاہم اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بہت سے سرکاری ملازمین نے بتایا کہ پوسٹل بیلٹ کا طریقہ کار مشکل ہونے کی وجہ سے عموماً کم ہی لوگ ان میں دلچسپی لیتے ہیں۔
ایک سرکاری ملازم نے بتایا کہ بعض علاقوں میں ڈاک خانہ اتنا دور ہوتا ہے کہ سرکاری ملازمین پوسٹل بیلٹ وصول اور پھر پوسٹ کرنے کے جھنجھٹ سے کتراتے ہیں کیونکہ انہیں طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے۔
اس کے باوجود سنہ 2018 کے انتخابات کے نتائج سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ہر حلقے میں سینکڑوں ووٹ پوسٹل بیلٹ کے ذریعے کاسٹ کیے گئے تھے۔ 
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اپنے اعداد وشمار کے مطابق سنہ 2018 میں قومی اسمبلی کے 272 حلقوں کے آٹھ لاکھ 16 ہزار جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے لیے آٹھ لاکھ 65 ہزار پوسٹل بیلٹ جاری کیے گئے۔ 
دوسری جانب اس سارے عمل کے بعد چاروں صوبوں سے صرف ایک لاکھ آٹھ ہزار ووٹ بذریعہ پوسٹل بیلٹ کاسٹ کیے گئے۔ ان پوسٹل ووٹوں میں پنجاب میں سب سے زیادہ 56 فیصد، خیبر پختونخوا میں 28 فیصد، سندھ میں آٹھ فیصد اور بلوچستان سے پانچ فیصد ووٹ شامل تھے۔ 

الیکشن کمیشن کے مطابق بیلٹ پیپرز کی چھپائی جوں ہی مکمل ہو گی تو یہ سب سے پہلے پوسٹل بیلٹ کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں کے لیے بذریعہ ڈاک روانہ کیے جائیں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان میں پوسٹل بیلٹ کسی امیدوار کی ہار یا جیت میں بہت زیادہ کردار ادا نہیں کرتے۔ اس کے باوجود گیلپ پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2018 میں قومی اسمبلی کی صرف چھ نشستیں ایسی تھیں جہاں پوسٹل ووٹوں کی تعداد جیتنے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کے درمیان فرق سے زیادہ تھی۔ یعنی اگر ان حلقوں میں پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ڈالے گئے ووٹ شامل نہ کیے جاتے تو نتیجہ تبدیل ہونے کے واضح امکانات موجود تھے۔ یہ حلقے مجموعی انتخابی حلقوں کا تین فیصد بنتے ہیں۔ 
اسی طرح 29 ایسے حلقے بھی تھے جہاں جیتنے اور ہارنے والے امیدوار کے درمیان بیلٹ ووٹس کا فرق جیتنے اور ہارنے والے امیدوار کے درمیان موجود فرق کے قریب ترین تھا۔

شیئر: