امریکہ کا یمن میں حوثیوں کے اہداف پر فضائی حملہ
امریکہ کے فوجی حکام نے کہا ہے کہ منگل کی صبح یمن میں دھماکہ خیز مواد لے جانے کے لیے استعمال ہونے والی حوثیوں کی کشتیوں کو فضائی حملے کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق سینٹر کمانڈ کی جانب سے جاری کے والے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ گاڑیاں امریکی نیوی کے بحری جہازوں اور تجارتی جہازوں کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی تھیں اس لیے یہ کارروائی دفاع میں کی گئی۔
سمندری سفر کے حوالے سے کام کرنے کرنے والی تنظیم یونائیٹڈ کنگڈم میری ٹائم ٹریڈ آپریشنز (یو کے ایم ٹی او) اس کو یمن کے مغربی علاقے حدیدہ میں ایک واقعے کی رپورٹ موصول ہوئی ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادی حوثیوں کے خلاف حملے کر رہے ہیں جنہوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ سمندری ٹریفک کو بند کر دیا جائے کیونکہ اس سے اسرائیل جنگ کی حمایت ہوتی ہے۔
اب تک ہونے والے حملوں کی امریکہ اور برطانیہ نے قیادت کی جبکہ آسٹریلیا، بحرین، ہالینڈ، نیوزی لینڈ اور ڈنمارک کی جانب سے ان کے لیے مدد فراہم کی گئی۔
اکتوبر میں حماس کے حملوں کے فوراً بعد ہی اسرائیل نے غزہ میں ایک بڑا فوجی آپریشن شروع کر دیا تھا۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ حماس کے حملوں میں ایک ہزار 12 سو افراد ہلاک ہوئے اور سینکڑوں کو یرغمال بنایا گیا۔
اسرائیلی جواب میں اب تک 27 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، جس پر عالمی عدالت انصاف کو یہ فیصلہ دینا پڑا کہ نسل کشی پر مقدمہ بھی دائر کیا جا سکتا ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ خطے میں تناؤ کو مزید نہیں بڑھانا چاہتا تاہم اس نے ایران کے حمایت یافتہ گروپوں کی جانب سے اردن میں تین امریکہ فوجیوں کی ہلاکت کے جواب میں پچھلے عراق اور شام پر حملے کیے تھے۔
اقوام متحدہ کو پیر فریقین پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور خطے میں پھیلنے والی آگ کے مانی و مالی نقصانات پر غور کریں۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں خطے میں سر اٹھانے والی تازہ کشیدگی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، جس میں سیاسی و امن سازی سے متعلق امور کے جنرل سیکریٹری روزی میری ڈی کارلو نے ایک بار پھر زور دیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ انسانی بنیادوں پر غزہ میں جنگ بند کی جائے اور تمام یرغمالیوںکی غیرمشروط رہائی عمل میں لائی جائے۔
جمعے کو عراق اور شام میں پاسداران انقلاب اور ایران کی حمایت یافتہ دوسری ملیشیاؤں پر حملوں میں درجن سے زائد مقامات اہداف کو نشانہ بنایا گیا تھا جن میں 18 افراد ہلاک ہوئے۔
یہ اقدام اردن میں ٹاور 22 بیس پر حملے کا بدلہ تھا، جس کا الزام امریکہ نے ایک گروپ پر لگایا تھا جس کو ایران کی حمایت حاصل ہے اور وہ امریکہ کے خلاف کارروائیاں کرتا ہے۔
دوسری جانب تہران نے کہا تھا کہ اڈے پر حملے میں اس کا کوئی کردار نہیں تھا اور گروپ اپنے طور پر آزادانہ کام کر رہے ہیں۔