Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں قومی اسمبلی کا 125 ممالک سے بڑا حلقہ

یہاں قبائلی ووٹ بینک بھی موجود ہے جس میں بلوچوں کے محمد حسنی، مینگل، بادینی، نوتیزئی، ریکی، نوشیروانی، سنجرانی، گورگیج شامل ہیں(فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان میں آج صوبائی اسمبلیوں کے علاوہ قومی اسمبلی کے 266 میں سے 265 حلقوں پر انتخاب ہونے جا رہا ہے۔
ان میں رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا حلقہ این اے 260 ہے جو بلوچستان کے رخشان ڈویژن کے چار اضلاع چاغی، واشک، خاران اور نوشکی پر مشتمل ہیں۔
یہ رقبے میں دنیا کے 125 سے زائد ممالک اور خطوں سے بڑا، خیبر پختونخوا کے تقریباً برابر اور لاہور سے 55 گنا بڑا ہے مگر خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کی 45 جبکہ لاہور میں 14 نشستیں ہیں۔ 

حلقے کا رقبہ کتنا ہے؟

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا ضلع چاغی ہے جس کا رقبہ 44 ہزار 748مربع کلومیٹر ہے۔ اسی طرح ضلع واشک کا رقبہ 33 ہزار 93، خاران کا 14 ہزار 958 اور نوشکی کا رقبہ پانچ ہزار 797مربع کلومیٹر ہے۔
ان چاروں اضلاع کو ملا کر حلقہ این اے 260 بنایا گیا ہے، اس طرح اس حلقے کا کل رقبہ 98 ہزار 596 مربع کلومیٹر بنتا ہے۔
پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق خیبر پختونخوا کا کل رقبہ ایک لاکھ ایک ہزار 741 مربع کلومیٹر ہے۔
اس طرح بلوچستان کا حلقہ این اے 260خیبر پختونخوا کے مجموعی رقبے سے صرف تین ہزار مربع کلومیٹر یعنی چار فیصد کم ہے۔
یہ حلقہ بلوچستان کے مجموعی رقبے کے 28 فیصد اور پاکستان کے کل رقبے کے 12 فیصد کے برابر ہے۔ اسی طرح صوبہ سندھ کے 69 فیصد اور پنجاب کے 48 فیصد رقبے کے برابر ہے۔
سی آئی اے کی ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق دنیا کے 257 میں سے 147 ممالک اور ریجنز کا رقبہ 98 ہزار مربع کلومیٹر سے کم ہے۔
ان میں ہنگری، پرتگال، اردن، آذربائیجان، متحدہ عرب امارات، آئرلینڈ، سری لنکا، ڈنمارک، نیدرلینڈ، سوئٹزرلینڈ، بیلجیم، اسرائیل، بحرین، سنگاپور، بھوٹان اور قطر جیسے ممالک شامل ہیں۔
طویل فاصلے ہونے کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو اس حلقے کے دو اضلاع میں بیلٹ پیپرز فضائی راستےاستعمال کرنا پڑے۔   

جغرافیائی حیثیت

اس حلقے سے افغانستان اور ایران کی سرحدیں لگتی ہیں۔ پاک ایران سرحد پر تفتان اور ماشکیل کی گزرگاہ اور پاک افغان سرحد پر برامچہ کی گزرگاہ اس حلقے میں واقع ہے۔
مئی 1998میں پاکستان نے جس پہاڑی سلسلے میں ایٹمی دھماکے کیے تھے، وہ بھی اسی حلقے میں آتا ہے۔
ریکوڈک اور سیندک کے ذخائر بھی یہاں واقع ہیں۔ ریکوڈک نہ صرف پاکستان میں سونے، چاندی اور تانبے کا سب سے بڑا ذخیرہ بلکہ دنیا کے سب سے بڑے غیر استعمال شدہ سونے کے ذخائر میں شمار ہوتا ہے۔

مئی 1998میں پاکستان نے جس پہاڑی سلسلے میں ایٹمی دھماکے کیے تھے، وہ بھی اسی حلقے میں آتا ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

اس کے علاوہ یہاں سنگ مرمر اور دیگر معدنیات کے وسیع ذخائر بھی پائے جاتے ہیں مگر اس کے باوجود ان چاروں اضلاع کا شکار نہ صرف صوبے بلکہ ملک کے پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔

حلقےمیں ووٹرز، امیدوار اور سیاسی رجحانات

این اے 260 کی کل آبادی 10 لاکھ 40 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 65 ہزار 595 ہیں جن میں مرد ووٹرز 2 لاکھ دو ہزار 289 اور خواتین ووٹرز ایک لاکھ 63 ہزار 306ہیں۔ یہاں 363 پولنگ سٹیشن اور 930 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ہیں۔
سنہ2018  کے انتخابات میں یہ حلقہ این اے 268 کہلاتا تھا تاہم اس میں صرف تین اضلاع چاغی، نوشکی اور خاران شامل تھے۔ اس بار اس میں واشک کا ضلع بھی شامل کر دیا گیا ہے۔
سنہ 2018 میں یہاں سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے محمد ہاشم نوتیزئی 32 ہزارووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے جبکہ آزاد امیدوار سردار فتح محمد حسنی کو 27 ہزار ووٹ ملے تھے۔
اس بار سردار فتح محمد حسنی مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں۔ ان کا مقابلہ بی این پی کے محمد ہاشم نوتیزئی، جمعیت علماء اسلام کے انجینئر محمد عثمان بادینی اور پیپلز پارٹی کے امیدوار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ اور بلوچستان عوامی پارٹی کے اعجاز سنجرانی سے ہے، جو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔
اعجاز سنجرانی کے علاوہ باقی چاروں امیدوار اس سے پہلے بھی رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ اس حلقے کے سیاسی رجحانات کو دیکھا جائے تو بلوچ قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی اور مذہبی سیاسی جماعت جمعیت جمعیت علماء اسلام کا ووٹ بینک زیادہ ہے۔

اس بار حلقہ این اے 260 سے سردار فتح محمد حسنی مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں(فائل فوٹو: سکرین گریب)

تاہم یہاں قبائلی ووٹ بینک بھی موجود ہے جس میں بلوچوں کے محمد حسنی، مینگل، بادینی، نوتیزئی، ریکی، نوشیروانی، سنجرانی، گورگیج وغیرہ شامل ہیں۔
سردار فتح محمد حسنی یہاں سے مختلف پارٹیوں کے ٹکٹ پر قبائلی ووٹ بینک کی بنیاد پر ہی کامیاب ہوتے رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق نئی حلقہ بندیوں میں واشک کا ضلع اس حلقے میں شامل ہونے سے سردار فتح محمد حسنی کو فائدہ پہنچا ہے اور ان کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے کیونکہ اس ضلع میں محمد حسنی قبائل کا بڑا ووٹ بینک موجود ہے۔
قومی اسمبلی کے حلقے کے نیچے بلوچستان اسمبلی کے چار حلقے پی بی 31 واشک، حلقہ پی بی 32 چاغی، پی بی 33 خاران، پی بی 34  آتے ہیں۔

انتخابی مہم چلانے میں مشکلات

65سالہ سردار فتح محمد حسنی 26 سال کی عمر سے اس حلقے پر انتخاب لڑتے آ رہے ہیں۔ وہ 1985ء سے پہلی بار رکن قومی اسمبلی اور پھر وفاقی وزیر بنے۔ وہ تین بار اس حلقے سے منتخب ہوئے ہیں۔ 
سردار فتح محمد حسنی کا کہنا ہے کہ 1985 میں یہ حلقہ کوئٹہ اور چاغی پر مشتمل تھا۔ اس وقت بھی یہ نہ صرف پاکستان کا رقبے بلکہ آبادی کے لحاظ سے  بھی پاکستان کا سب سے بڑا حلقہ تھا اور آج چار دہائیوں بعد یہ حلقہ اسی طرح ملک کا سب سے وسیع رقبے پر مشتمل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ حلقہ خیبر پختونخوا کے برابر تو ہے مگر یہاں خیبر پختونخوا کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر سڑکوں کا نیٹ ورک موجود ہے۔ بہت سے علاقوں تک جانے لیے سڑکیں نہیں ہیں۔ سڑک نہ ہو تو پانچ کلومیٹر طے کرنے میں بھی دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔‘

اس حلقے سے سنہ 2018 کا انتخاب محمد ہاشم نوتیزئی نے جیتا تھا (فائل فوٹو: سکرین گریب)

سردار فتح حسنی کے مطابق ’یہاں پہاڑی علاقے بھی ہیں۔ صحرا اور ریگستان بھی ہیں۔ آبادی منتشر ہے، کہیں 10 گھروں پر مشتمل ایک گاؤں ہے کہیں 15 بیس گھروں پر۔ اتنے بڑے رقبے اور اتنی منتشر آبادی تک مکمل پہنچنا ایک سال میں بھی ممکن نہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہر علاقے تک رسائی ممکن نہیں تو ہم اپنا قبائلی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں اور لوگ انتخابی مہم میں تعاون کرتے ہیں۔‘
اس حلقے سے 2018 کا انتخاب جیتنے والے محمد ہاشم نوتیزئی کہتے ہیں کہ یہاں کا رقبہ خیبر پختونخوا کے رقبے کے برابر ہیں مگر یہاں قومی اسمبلی کا صرف ایک حلقہ ہے اور خیبر پختونخوا میں 45۔ اتنے بڑے حلقے میں انتخابی مہم چلانے میں ہمیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
تاہم جمعیت علماء اسلام سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی عثمان بادینی کہتے ہیں کہ ’جے یوآئی کے امیدوار کی حیثیت سے میرے لیے انتخابی مہم چلانے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی کیونکہ ہماری پارٹی اور تنظیمی ڈھانچہ مضبوط اور فعال ہیں۔ ہر جگہ ہمارے یونٹس ہیں۔‘

’حلقہ بندی درست ہوتی تو حلقہ اتنا بڑا نہ ہوتا‘

آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت قومی اسمبلی کی کل 326 نشستیں صوبوں کے درمیان آبادی کی بنیاد پر تقسیم کی گئی ہیں۔ اس میں جنرل نشستوں کی تعداد 266 نشستیں ہیں جن پر براہ راست انتخاب ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن ہر نئی مردم شماری کے بعد جنرل نشستوں کی حلقہ بندیاں کرتا ہے۔
تاہم اس بار حلقہ بندیاں بہت عجلت میں کی گئیں اور اس کے لیے اسمبلی کی تحلیل کے بعد مقررہ 90 دنوں میں انتخابات کی آئینی شرط پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔
آرٹیکل 51 کے تحت 266 جنرل نشستوں میں پنجاب کی سب سے زیادہ 141،  سندھ کی 61، خیبر پختونخوا کی 45 اور صوبوں میں سب سے کم بلوچستان کی 16 جنرل نشستیں ہیں۔ اسلام آباد کے لیے بھی 3جنرل نشستیں مختص ہے۔
بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے اس بات پر اعتراض اٹھایا تھا کہ 2017 کے مقابلے میں 2023 کی مردم شماری میں بلوچستان کی آبادی میں 25 لاکھ یعنی 20 فیصد اضافہ ہوا مگر اس کے باوجود بلوچستان کی قومی اسمبلی کی کوئی نشست نہیں بڑھائی گئی۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ ’ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیاں کرانے کے فیصلے کے بعد اصولی طور پر صوبوں کی قومی اسمبلیوں کی نشستوں کے از سرنو تعین کے لیے آئین میں ترامیم بھی کرانی چاہیے تھیں۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’سنہ 2023 میں نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے حساب سے پنجاب کی قومی اسمبلی کی 8 نشستیں کم اور بلوچستان کی کم از کم چار نشستیں بڑھنی چاہیے تھی مگر آئینی ترامیم نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان کا نقصان ہوا۔‘

سردار فتح حسنی کا کہنا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں سے پہلے بلوچستان کی نشستیں بڑھانے سے متعلق آئینی ترمیم ضروری تھی (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)

سردار فتح حسنی کا کہنا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں سے پہلے بلوچستان کی نشستیں بڑھانے سے متعلق آئینی ترمیم ضروری تھی مگر وہ نہیں کی گئی اور اسمبلی تحلیل ہو گئی۔ اس طرح بلوچستان اپنے حق سے محروم ہو گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مردم شماری میں اس ڈویژن کی مجموعی آبادی 17 لاکھ تھی مگر کٹ لگا کر 10 لاکھ کر دی گئی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بھی یہ حلقہ  تھوڑا چھوٹا ہو جاتا ہے۔‘
ریجنل الیکشن کمشنر بلوچستان محمد نعیم کے مطابق پاکستان میں حلقہ بندیاں آبادی کی بنیاد پر ہوتی ہے تاہم الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 20 کے تحت انتظامی یونٹس، جغرافیائی یکسانیت سمیت کچھ دیگر اصولوں کو دیکھا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’حلقہ بندیوں میں رقبے کو مدنظر نہیں رکھا جاتا چونکہ بلوچستان کی آبادی منتشر مگر رقبہ بہت زیادہ ہے اور یہ ملک کے نصف حصے کے برابر ہے، اس لیے یہاں حلقوں کا رقبہ بہت بڑا ہوتا ہے۔‘

وسیع علاقے میں سہولیات پہنچانا مشکل

سابق رکن قومی اسمبلی ہاشم نوتیزئی کہتے ہیں کہ ’منتشر آبادی تک سڑکیں، پانی اور دیگر سہولیات پہنچانا بہت مشکل ہوتا ہے، اس لیے یہاں کے نمائندوں کے لیے اس حلقے میں ترقیاتی کام کرانا اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچانا ایک چیلنج رہا ہے۔‘
سردار فتح حسنی کا کہنا تھا کہ ’سیندک، ریکوڈک کے ذخائر  سمیت یہ معدنیات سے مالا مال خطہ ہے مگر اس کے باوجود یہاں کے لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اس پسماندگی کی وجہ فنڈز کا شفاف خرچ نہ ہونا ہے۔ اگر فنڈز شفاف خرچ ہوتے تو رقبہ بڑا ہونے کے باوجود یہاں کے بہت سارے مسائل حل ہو جاتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چاغی قدرتی وسائل کے حوالے سے دنیا کے امیر ترین خطے میں شمار ہوتا ہے۔ اگر اس کا بہتر طریقے سے استعمال ہو تو نہ صرف چاغی اور رخشان ڈویژن بلکہ پورا پاکستان امیر ممالک میں شمار ہوسکتا ہے۔‘

چاغی قدرتی وسائل کے حوالے سے دنیا کے امیر ترین خطے میں شمار ہوتا ہے (فائل فوٹو: سیندک)

محمد ہاشم نوتیزئی کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں تعداد کم ہونے کی وجہ سے بلوچستان کی کوئی سنتا ہے اور نہ مرکز کی جماعتیں یہاں کے مسائل پر توجہ دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ قومی اسمبلی کی بجائے اختیارات سینٹ کو دیے جائیں جہاں تمام صوبوں کی نمائندگی برابر ہے۔
سابق رکن قومی اسمبلی عثمان بادینی  بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’بلوچستان سے قومی اسمبلی کی صرف 16 نشستیں ہیں۔ یہ نشستیں بھی کئی جماعتوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں جس سے قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نمائندگی منقسم رہتی ہے۔ اس لیے ہمار ا مطالبہ ہے کہ بلوچستان کے ہر ضلع میں کم از کم قومی اسمبلی کا ایک حلقہ ہونا چاہیے۔‘

شیئر: