کیا ٹینس سعودی کھیلوں کے لیے اگلا ’گرینڈ سلام‘ ہے؟
کیا ٹینس سعودی کھیلوں کے لیے اگلا ’گرینڈ سلام‘ ہے؟
پیر 19 فروری 2024 18:37
بڑے ٹورنامنٹ کے انعقاد سے ٹینس کو حوصلہ افزائی ملے گی۔ فائل فوٹو سعودی ٹینس فیڈریشن
سعودی عرب میں ٹینس تیزی سے مقبول کھیل بنتا جا رہا ہے جس میں خواتین اور لڑکیوں سمیت ہزاروں نوجوان ٹینس کلبوں کا حصہ بن رہے ہیں۔
عرب نیوز کے کرنٹ افیئر شو’ فرینکلی سپیکنگ‘ میں سعودی ٹینس فیڈریشن کی صدر اریج مطبقانی نے کہا ہے کہ مملکت میں ٹینس کی مقبولیت سے بڑے ٹورنامنٹس میں حصہ لینے اور یہاں تک کہ اس کی میزبانی کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔
اریج مطبقانی نے بتایا کہ خاص طور پر جب بات کھیلوں کی دنیا اور خواتین کی کھیلوں میں شرکت کی ہو تو سعودی عرب ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہا ہے۔
ٹینس فیڈریشن کی صدر کا کہنا ہے کہ ’ہم نے کھیلوں میں خواتین کی شرکت میں اضافہ کیا ہے۔ اب ہمارے پاس مختلف کھیلوں میں تین لاکھ 30 ہزار اور ٹینس میں تقریباً 14 ہزار خواتین حصہ لے رہی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سعودی وژن 2030 کے اصلاحاتی ایجنڈے میں متعارف کرائے گئے حکومتی اقدامات کے تحت کھیلوں میں سرمایہ کاری، صحت عامہ اور فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دی ہے۔‘
’سعودی وزارت تعلیم کے سپورٹس فار آل فیڈریشن کے ساتھ بہت بڑے شراکتی پروگرام میں ہم ٹینس کو بچوں کے لیے نئے کھیل کے طور پر متعارف کرا رہے ہیں۔‘
گذشتہ برس ہم نے سعودی عرب میں 30 سکولوں کے ساتھ اس پروگرام کا آغاز کیا ہے جو 90 سکولز تک بڑھا دیا ہے اور 2024 میں اس کی 400 سکولوں تک توسیع کی جائے گی۔
ٹینس فیڈریشن کی صدر نے بتایا کہ 2019 میں ہمارے ٹینس کلبوں میں خواتین کی شرکت نہیں تھی تاہم اب سات ایسے ٹینس کلب ہیں جہاں خواتین کھیل رہی ہیں۔
ٹینس کے کھیل میں حصہ لینے والی خواتین کی تعداد 2019 میں 90 تھی جو کہ اب ہمارے پاس ٹینس کھیلنے والی 700 خواتین رجسٹرڈ ہیں۔
خواتین کی بنائی گئی قومی ٹینس ٹیم اب تک 20 مقابلوں میں حصہ لے چکی ہے۔
سعودی سپورٹس فار آل فیڈریشن مملکت کے سماجی اور اقتصادی ترقی کے طویل المدتی ترقیاتی منصوبے وژن 2030 کے مطابق کمیونٹی کھیلوں کی ترقی اور مملکت بھر میں صحت مند طرزِزندگی کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے۔
متبقانی نے فرینکلی سپیکنگ کی میزبان کیٹی جینسن کو بتایا کہ ’ہم نے کلبوں میں ٹینس کو متعارف کرایا ہے جب کہ 2019 میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں ہمارے ٹینس کلبوں کی شرکت صفر تھی۔‘
’اب ہمارے پاس سات ایسے کلب ہیں جن میں خواتین کھلاڑی بھی شریک ہیں۔ ہم نے خواتین کے ٹینس ٹورنامنٹس کی تعداد میں اضافہ کیا ہےجو بڑی پیش رفت ہے۔‘
دوسری جانب ان تمام کامیابیوں کے باوجود عالمی لیجنڈز اور ٹینس کی سابق امریکی سٹارز کرس ایورٹ اور مارٹینا ناوراٹیلووا نے حال ہی میں کہا ہے کہ صنفی مساوات میں کمی کی وجہ سے مملکت کو ویمنز ٹینس ایسوسی ایشن فائنلز جیسے ایونٹس کی میزبانی نہیں کرنی چاہیے۔
جواب میں امریکہ میں متعین سعودی سفیر شہزادی ریما بنت بندر نے ایک بیان میں دونوں سابق امریکی ٹینس سٹارز کے’مایوس کن‘ دلائل مسترد کر دیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’دنیا بھر کی بہت سی خواتین کی طرح ہم نے بھی ٹینس لیجنڈز کو رول ماڈل کے طور پر دیکھا ہے اور امید ہے کہ ہمارے ہاں کی خواتین یہ سب کر سکتی ہیں۔‘
شہزادی ریما بنت بندر نے مزید کہا کہ ’یہ مایوس کن ہے کہ سابق عالمی چیمپیئنز نے انہی خواتین سے منہ موڑ لیا جو معروف ٹینس سٹارز سے متاثر ہیں۔‘
سعودی ٹینس فیڈریشن کی صدر نے کرس ایورٹ اور مارٹینا ناوراٹیلووا کو کھیلوں میں تبدیلی اور خواتین کی شرکت میں بڑی پیش رفت کا مشاہدہ کرنے کے لیے مملکت کے دورے کی دعوت دی ہے۔
’ٹینس لیجنڈ سعودی عرب آئیں اور دیکھیں کہ ہم تبدیلی کے مرحلے میں ہیں اور وہ اس سفر کا حصہ بنیں خاص طور پر خواتین کی ٹینس میں شرکت کے ساتھ ہم ان سے بہت کچھ سیکھیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس کے باوجود ٹینس لیجنڈز کے تبصرے کا احترام کرتی ہوں جس کے لیے وہ اور ہر کوئی آزاد ہے۔‘
ٹینس فیڈریشن کی صدر اریج مطبقانی کو امید ہے کہ سعودی عرب ٹینس کے بڑے ایونٹ یا گرینڈ سلیم کی جلد ہی میزبانی کرے گا کیونکہ اس بڑے ٹورنامنٹ کے انعقاد سے سعودیوں کو اس کھیل میں حصہ لینے کی مزید حوصلہ افزائی ملے گی۔
ان کے مطابق ’کھلاڑیوں کے پاس دیکھنے کے لیے رول ماڈلز ہوں گے۔ یہ نئی نسل کو مستقبل میں چیمپیئن بننے کے لیے مزید محنت کرنے، سخت تربیت دینے اور یہاں ہونے والے ٹورنامنٹس میں حصہ لینے کے قابل بنائے گی۔‘