پنجاب کی وزارت اعلٰی کا انتخاب پیر کو صوبے کی اسمبلی میں بالآخر ہو گیا ہے اور مریم نواز پہلی خاتون وزیراعلٰی منتخب ہو چکی ہیں۔
سپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے دن 11 بجے وزیراعلٰی کے الیکشن کا وقت دیا گیا تھا۔ اس سے قبل مگر پنجاب اسمبلی کی سکیورٹی انتہائی سخت تھی۔ حتٰی کہ داخلی سڑکوں کو خاردار تاروں سے عام ٹریفک کے لیے بند کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں
اجلاس ساڑھے 11 بجے شروع ہوا تو سنی اتحاد کونسل کی طرف سے وزارت اعلٰی کے امیدوار رانا آفتاب نے سپیکر سے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے کی اجازت چاہی تو سپیکر ملک محمد احمد خان نے انہیں منع کر دیا۔
سپیکر نے اپنی رولنگ میں کہا کہ آج کے اجلاس کا ایجنڈا وزارت اعلٰی کے انتخاب کا ہے، اس کے علاوہ آئینی طور پر کسی اور چیز کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اجازت نہ ملنے پر سنی اتحاد کونسل نے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا اور تمام ممبران ایوان چھوڑ کر باہر نکل گئے۔ سپیکر نے عملے کو کہا کہ پانچ منٹ تک گھنٹیاں بجائیں اگر یہ واپس نہیں آتے تو الیکشن کا عمل شروع کروا دیا جائے گا۔ اسی دوران مریم نواز نے سپیکر کو درخواست کی کہ اپوزیشن کا ہونا بہت ضروری ہے انہیں منانے کی کوئی تدبیر کی جائے۔
سپیکر ملک احمد خان نے کہا کہ ’آپ کا یہ رویہ لائق تحسین ہے لیکن آئین اور رولز اس بات کی اجازت نہیں دیتے جو مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ تاہم پھر بھی میں خواجہ عمران نذیر، سہیل شوکت بٹ، خواجہ سلمان رفیق اور طاہر خلیل سندھو کو بھیجتا ہوں کہ اپوزیشن سے مذاکرات کر کے انہیں لے کر آئیں۔‘
اس کمیٹی نے اگلے 10 منٹ کے بعد آ کر بتایا کہ معاملات طے پا گئے ہیں۔ اپوزیشن کے 20 سے 25 اراکین واپس آئے اور آ کر دوبارہ وہی مطالبہ دہرایا تو اسپیکر نے انتخاب سے قبل پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے کی پھر اجازت نہ دی تو دوبارہ بائیکاٹ کر دیا۔

اس بائیکاٹ کے بعد کچھ دیر انتظار کیا گیا اور پھر سپیکر نے الیکشن کے عمل کا آغاز دیا اور ایوان کے دروازے بند کرنے کا حکم دے دیا۔ سو اس طرح پنجاب کی وزارت اعلٰی کے الیکشن کا عمل سنی اتحاد کونسل کے بغیر ہی شروع ہو گیا۔
ایک گھنٹے تک حاضری کا عمل جاری رہا اور پھر تقریباً ڈیڑھ بجے سپیکر نے اعلان کیا کہ ایوان میں مریم نواز کو 220 اراکین کی حمایت حاصل ہے اس لیے وہ وزیراعلٰی منتخب ہو چکی ہیں۔
خیال رہے کہ پنجاب اسمبلی میں حکومت بنانے کے لیے 185 اراکین کی ضرورت ہوتی ہے۔
مریم نواز کا طویل خطاب
سپیکر کی جانب سے مریم نواز کی جیت کا اعلان ہوتے ہی ایوان نعروں سے گونج اٹھا۔ گیلری میں بیٹھے لیگی کارکنوں کی نعرے بازی کا جواب مریم نواز ہاتھ ہلا کر دے رہی تھیں۔ اسی دوران قائد ایوان کی نشست پر تقریر کے لیے ڈائس لگانا شروع کر دیا۔ اس وقت بائیں طرف مہمانوں کی گیلری میں مریم نواز کے بیٹے جنید صفدر اور بیٹی بھی بیٹھے تھے، تاہم کیپٹن صفدر نظر نہیں آئے۔
اسی گیلری میں جنید صفدر کے پیچھے چیف سیکریٹری پنجاب، آئی جی پنجاب اور ڈی سی لاہور بھی بیٹھے تھے۔ اسی طرح اسحاق ڈار، پرویز رشید، اعظم نذیر تارڑ بھی مہمانوں کی گیلری میں موجود تھے۔
مریم نواز نے تقریر شروع کی تو انہوں نے اپنی والدہ کلثوم نواز کی تصویر ڈائس پر رکھ دی اور خطاب شروع کیا۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ پوری تیاری کے ساتھ آئی ہیں۔ ان کے سامنے نوٹس رکھے ہوئے تھے تاہم وہ زیادہ تر فی البدیہہ ہی بول رہی تھیں۔
