قبل ازیں اسرائیل نے حماس کی تجویز کو ’فریب‘ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا جب حماس نے کہا تھا کہ غزہ جنگ کے مستقل خاتمے کے بغیر یرغمالیوں کو آزاد نہیں کیا جائے گا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی محفوظ بنانے کے لیے غزہ کی جنگ میں صرف ایک بار عارضی توقف کرے گا۔ فریقین ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہتے ہیں۔
حماس کے سربراہ اسماعیل ھانیہ نے امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے ثالثی کی کوشش قبول ہے۔
انہوں نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ تعطل ادھر سے ہے جب کہ غزہ کے شہری اسرائیلی محاصرے میں اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔
حماس کے سربراہ نے کہا ہے کہ ہم دشمن کو اس جرم کی آڑ کے طور پر مذاکرات کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
حماس کے سینئر عہدیدار سامی ابو زہری نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے کسی بھی معاہدے کے لیے جارحیت کے خاتمے، قبضے سے دستبرداری، بے گھر ہونے والوں کی واپسی، امدادی سامان کے داخلے، پناہ گاہوں کی تعمیر نو کی ضرورت ہے۔
اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل معاہدے کے لیے تیار ہے اور اب یہ حماس پر منحصر ہے کہ وہ اسے ’غیر ملکی‘ یا ‘کسی دوسرے سیارے سے‘ قرار دے کر اپنے مطالبات واپس لے۔
دوسری جانب اسرائیل پر امریکہ کا دباؤ ہے کہ وہ جنوبی غزہ کے علاقے رفح پر ممکنہ حملے روکنے کے لیے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کرے۔