Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان اسمبلی کے نومنتخب سپیکر اور خاتون ڈپٹی سپیکر کون ہیں؟

بلوچستان اسمبلی کا افتتاحی اجلاس کل بدھ کو ہوا تھا (فوٹو: عدنان احمد)
پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے کیپٹن ریٹائرڈ عبدالخالق اچکزئی بلوچستان اسمبلی کے بلامقابلہ سپیکر جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی غزالہ گولہ بلامقابلہ ڈپٹی سپیکر منتخب ہو گئیں۔ دونوں نے اپنے عہدوں کا حلف بھی اٹھا لیا ہے۔
بلوچستان اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے لیے کاغذات نامزدگی کے لیے جمعرات کی دوپہر 12 بجے کا وقت مقرر کیا گیا تھا تاہم عبدالخالق اچکزئی اور غزالہ گولہ کے مقابلے میں کسی امیدوار نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے اراکین نے جمعیت علما اسلام اور دوسری جماعتوں کے اراکین سے ملاقات کر کے بلامقابلہ انتخاب میں تعاون پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں۔
پریزائیڈنگ آفیسر عوامی نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی انجینئر زمرک اچکزئی نے سہ پہر تین بجے ہونے والے اجلاس میں عبدالخالق اچکزئی اور غزالہ گولہ کی کامیابی کا اعلان کیا۔
زمرک اچکزئی نے عبدالخالق اچکزئی نے عہدے کا حلف لیا جس کے بعد نومنتخب سپیکر نے کرسی صدارت سنبھال لی۔ انہوں نے بعد ازاں غزالہ گولہ سے ڈپٹی سپیکر کا حلف بھی لیا۔
بلوچستان اسمبلی میں دو سب سے بڑی جماعتوں کی حیثیت سے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے حکومت سازی کا فارمولہ طے کیا۔ اس کے تحت سپیکر کا عہدہ مسلم لیگ (ن) جبکہ ڈپٹی سپیکر کا عہدہ پیپلز پارٹی کو ملا ہے۔
اس معاہدے کے تحت گورنر مسلم لیگ (ن) جبکہ وزارت اعلیٰ پیپلز پارٹی کو ملے گی۔ اس سے پہلے مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت نے سپیکر کے لیے خاتون رکن اسمبلی راحیلہ حمید درانی کا نام تجویز کیا تھا تاہم لیگی اراکین اسمبلی نے اس کی مخالفت کی۔
عبدالخالق اچکزئی نے اعتماد کا اظہار کرنے پر ساتھی اراکین اسمبلی اور تمام جماعتوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ بلاامتیاز تمام اراکین کو ساتھ لے کر چلیں گے اور اسمبلی امور کو منصفانہ طریقے سے چلائیں گے۔
نو منتخب سپیکر کیپٹن ریٹائرڈ عبد الخالق اچکزئی کون ہیں؟
بلوچستان اسمبلی کے 17ویں سپیکر کیپٹن ریٹائرڈ عبدالخالق اچکزئی کا تعلق ضلع چمن سے ہے۔ وہ وہاں سے بطور آزاد رکن منتخب ہو کر مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے تھے۔

عبدالخالق اچکزئی اور غزالہ گولہ نے عہدوں کا حلف اٹھا لیا ہے (فوٹو: اے پی پی)

54 سالہ عبدالخالق اچکزئی چمن میں پیدا ہوئے۔ وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی پھر حیدرآباد سندھ سے میٹرک کیا اور اکتوبر 1991 میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ جون 1998 میں پاک فوج سے بطور کیپٹن ریٹائرڈ ہوئے۔
عبدالخالق اچکزئی نے دو دہائی قبل عملی سیاست کا آغاز بلدیاتی اداروں کا انتخاب لڑ کر کیا۔ چمن کی یونین کونسل کے ناظم منتخب ہوئے۔ 2004 سے 2007 تک چمن کے ضلع ناظم رہے۔
 2008 میں چمن سے پہلی بار آزاد حیثیت سے بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بعد ازاں مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے۔ تب وہ صوبائی اسمبلی میں واحد ن لیگی رکن تھے۔ نواب اسلم رئیسانی کی کابینہ میں صوبائی وزیر کھیل اور امور نوجوانان رہے۔
عبدالخالق اچکزئی نے 2013 اور2018 کے انتخابات میں شکست کھائی۔ 2018 میں ن لیگ چھوڑ کر بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہوئے۔ دو برس تک وزیراعلیٰ جام کمال کے معاون خصوصی رہے۔ آٹھ فروری کے انتخابات میں دوسری بار چمن سے رکن صوبائی اسمبلی بنے۔
بلوچستان اسمبلی کی نومنتخب ڈپٹی سپیکر غزالہ گولہ کون ہیں؟
72 سالہ غزالہ گولہ بلوچستان اسمبلی کی 17ویں ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئی ہیں۔ وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی بلوچستان کی دوسری خاتون ہیں۔ اس سے پہلے 2012 میں فوزیہ مری بلوچستان اسمبلی کی پہلی ڈپٹی سپیکر جبکہ 2015 میں راحیلہ درانی پہلی سپیکر منتخب ہوئی تھیں۔

غزالہ گولہ پاکستان پیپلز پارٹی کی دیرینہ کارکن ہیں (فوٹو: پی پی، سوشل میڈیا)

غزالہ گولہ کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے وہ گزشتہ پانچ سال سے پارٹی کی خواتین ونگ کی صوبائی صدر ہیں۔ وہ دوسری بار خواتین کی مخصوص نشست پر بلوچستان اسمبلی کی رکن بنی ہیں۔ اس سے پہلے وہ 2008 میں بھی بلوچستان اسمبلی کی رکن رہیں۔ تب بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی پہلی خاتون وزیر بنی تھیں۔ ان کے پاس اقلیتی امور اور ترقی نسواں کی وزارت تھی۔
’50 سال میں کبھی پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا‘
غزالہ گولہ پیپلز پارٹی کی دیرینہ کارکنوں میں سے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ 70 کی دہائی کے شروع میں زمانہ طالب علمی میں ہی پیپلز پارٹی سے وابستہ ہوئیں اور ان کی پیپلز پارٹی سے وابستگی کو کم از کم 50 سال ہو چکے ہیں۔
غزالہ گولہ کے مطابق ’اس دوران بہت سی مشکلات اور آزمائشیں بھی آئیں مگر کبھی پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ضیا دور میں کوئٹہ میں احتجاج کے دوران لاٹھی چارج کا سامنا بھی کیا۔ پرویز مشرف کا دور آمریت بھی مشکل عرصہ رہا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب 1979 میں پہلی بار کوئٹہ آئیں تو میں ان کے ساتھ تھی۔‘
’سیاست شروع کی تو اخبار میں خواتین کا نام لکھنا ممنوع سمجھا جاتا تھا ‘
غزالہ گولہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے اس وقت بلوچستان کی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا جب خواتین کے لیے گھروں سے نکلنا تک مشکل تھا۔ اس وقت خواتین کے لیے اخباری بیانات میں اپنا نام لکھنا تک ممنوع سمجھا جاتا تھا۔ گھر اور علاقے والے منع کرتے تھے۔
غزالہ گولہ کے بقول ’تب میں مسز یا بیگم اشفاق گولہ کے نام سے اخبار میں بیانات دیتی تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ آج وقت بدل گیا ہے اور خواتین کے لیے سیاست کے دروازے کھل گئے ہیں لیکن اس میں ہماری جدوجہد کا کچھ نہ کچھ حصہ شامل ہے۔

سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی نامزدگی کے مقابلے میں کسی نے کاغذات جمع نہیں کرائے تھے (فوٹو: اردو نیوز)

غزالہ گولہ کا تعلق ضلع صحبت پور سے ہے۔ وہ اکتوبر 1952 میں بلوچوں کے گولہ قبیلے کے سردار ارشاد علی کے گولہ کے ہاں پیدا ہوئیں، انہوں نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی اور گریجویشن حیدرآباد سے کی۔
غزالہ گولہ کے دادا سردار نور حمد گولہ قائداعظم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ وہ انگریز دور میں شاہی جرگے کے رکن اور قیام پاکستان کے بعد بلوچستان سے قائداعظم کے پہلے مشیر تھے۔
ان کے شوہر میر اشفاق احمد گولہ، بھائی ڈاکٹر شعیب احمد گولہ اور والد میر ارشاد علی گولہ سینیئر بیوروکریٹس رہے۔
 ان کے شوہر اور والد نیشنل بینک کے ڈائریکٹر، والد چیئرمین پبلک سروس کمیشن بھی رہے۔ ان کے بھائی سابق سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو ڈاکٹر شعیب احمد گولہ قبیلے کے سربراہ ہیں۔
غزالہ گولہ کے مطابق صحبت پور ضلع کا نام ان کے پردادا سردار سخی صحبت خان کے نام پر ہے وہ اپنی سخاوت کے لیے مشہور تھے۔
انہوں نے سبی ، نصیرآباد اور صحبت پور میں مسافروں کے لیے کئی مسافر خانے بنوائے۔ سبی میں 100 کمروں پر مشتمل ان کا قائم کردہ ‘سرائے صحبت خان ‘آج بھی موجود ہے۔
نومنتخب ڈپٹی سپیکر کے بقول ان کے والد سردار ارشاد احمد گولہ ذوالفقار علی بٹو اور نواب اکبر بگٹی کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کے والد بھی پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے۔ 

شیئر: