Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بھٹو کیس: سزا وکلا کی غلطی یا جنرل ضیا اور مولوی مشتاق گٹھ جوڑ کا نتیجہ؟

فضل الٰہی چودھری نے بعد میں جنرل ضیا الحق کو بھٹو کے لیے رحم کی اپیل کا خط لکھا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
 سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے چھ مارچ کو بھٹو کیس کے حوالے سے صدارتی ریفرنس پر اپنا فیصلہ سنایا ہے جس کے مطابق بینچ نے متفقہ رائے دی ہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل نہیں ملا۔
بھٹو کے خلاف لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کارروائی آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق آرٹیکل-4 109 اے کے مطابق نہیں تھی۔
تاہم عدالت نے بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلہ کو کالعدم نہیں کیا کہ بینچ کے مطابق آئین وقانون میں ایسا کوئی مکینزم موجود نہیں۔

 صدارتی ریفرنس کیوں بھیجا گیا؟

 بھٹو صاحب کو سپریم کورٹ سے پھانسی کی سزا چھ فروری 1979 کو ہوئی تھی۔ 24 مارچ کو نظرثانی کی درخواست بھی مسترد کر دی گئی جس کے چند دنوں بعد چار اپریل 79 کو پھانسی بھی دے دی گئی۔
نظرثانی کے بعد پورا عدالتی عمل مکمل ہوگیا تھا، اس لیے بھٹو کیس پھر سے اوپن نہیں ہوسکتا تھا۔
 ایک راستہ البتہ تھا جو زرداری دور میں پیپلزپارٹی حکومت نے اختیار کیا۔
2011 میں صدر زرداری کی جانب سے سپریم کورٹ کو صدارتی ریفرنس بھیجا گیا، جس میں ایک بنیادی نکتہ پر عدالت کی رائے پوچھی گئی کہ کیا بھٹو ٹرائل کے دوران ڈیو پراسیس اور فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کیے گئے؟
افتخار چودھری تب چیف جسٹس تھے، ان کے پاس یہ ریفرنس آیا۔ بابراعوان پی پی حکومت کے وزیرقانون تھے۔ وہ وزارت سے استعفا دے کر اس ریفرنس میں بطور وکیل پیش ہوئے۔
چھ سماعتیں ہوئی تھیں کہ پھر افتخار چودھری ریٹائر ہوگئے اور اگلے 11 برس تک یہ کیس فائلوں تلے دبا رہا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آ کر اسے پھر سے فعال بنایا اور اس پر اب فیصلہ بھی آ گیا۔

 بھٹو کیس کیا تھا؟

 نومبر 74 میں لاہور کی ایک سڑک پر سفر کرتے ہوئے پی پی کے رکن قومی اسمبلی احمد رضا قصوری کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی۔
احمد رضا قصوری تو بال بال بچ گئے البتہ ان کے والد نواب احمد خان قصوری گولیوں کا نشانہ بن کر جان سے گئے۔ احمد رضا قصور ی کا شمار تب پی پی کے باغی اراکین اسمبلی میں ہوتا تھا۔
وہ بھٹو کے خلاف تندوتیز تقریریں کیا کرتے اور مبینہ طور پر بھٹوصاحب بھی اس سے شدید نالاں اور ناخوش تھے۔ احمد رضا قصوری نے اس کیس کی ایف آئی آر میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نامزد کر دیا۔

احمد رضا قصوری بھی بعد میں پیپلزپارٹی میں ایکٹو رہے اور وہ بھٹو کو اپنا لیڈر کہا کرتے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

 پولیس شاید درج نہ کرتی، مگر چوٹی کے کئی سینیئر وکلا تھانے پہنچ گئے اور عوامی دباﺅ ایسا پڑا کہ ایف آئی آر درج ہوگئی۔
کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے نامور قانون دان محمود علی قصوری (والد خورشید محمود قصوری سابق وزیرخارجہ ) نے ایف آئی آر خود ساتھ بیٹھ کر لکھوائی تھی۔
اس ایف آئی آر پر کوئی خاص کارروائی نہ ہوئی اور نہ ہی اسے خارج کیا گیا۔ حتیٰ کہ لوگ اسے بھول بھال گئے تھے۔
احمد رضا قصوری بھی بعد میں پیپلزپارٹی میں ایکٹو رہے اور وہ بھٹو کو اپنا لیڈر کہا کرتے تھے۔

 بھٹو کیس :کھیل شروع ہوتا ہے

 جنرل ضیا الحق نے پانچ جولائی 1977 کو مارشل لا نافذ کیا اور دو ماہ بعد گیارہ ستمبر 1977کو استغاثہ یعنی سرکارکی جانب سے لاہور میں مجسٹریٹ کے روبرو بھٹو کے خلاف اسی ایف آئی آر کا نامکمل چالان پیش کیا گیا جس میں الزام عائد تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے نواب احمد خان کو قتل کرایا۔
مجسٹریٹ نے چالان سیشن عدالت بھیج دیا۔ اسی دن ریاست نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی کہ اس مقدمے کو ہائی پروفائل ہونے کے ناتے ہائی کورٹ منتقل کیا جائے۔
قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی مشتاق حسین نے فوری مقدمہ کو ٹرائل کے لیے لاہور ہائی کورٹ منتقل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

 مولوی مشتاق اور بھٹو کا تنازع کیا تھا؟

 مولوی مشتاق حسین لاہور کورٹ کے سینیئر جج تھے، مشہور ہے کہ وہ قابل اور محنتی جج ہونے کے ساتھ سخت گیر اور کینہ پرور ہونے کی شہرت رکھتے تھے۔ مولوی مشتاق اور لاہورکورٹ کے چیف جسٹس سردار اقبال میں شدید مخاصمت اور ناپسندیدگی تھی۔
سردار اقبال بڑے دبنگ چیف جسٹس تھے، بھٹو حکومت سردار اقبال سے جان چھڑانے کے لیے آئین میں پانچویں ترمیم لے آئی اور اکتوبر 1976 میں انہیں ریٹائر کر دیا گیا۔
مولوی مشتاق ان کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے سینیئر ترین جج تھے اور وہ عرصے سے چیف جسٹس بننے کے خواہش مند تھے۔ مولوی مشتاق کو ترقی کر کے سپریم کورٹ جانے کے مواقع بھی ملے تھے، مگر وہ جان بوجھ کر لاہور ہائی کورٹ میں ٹکے رہے اور اپنے جونیئرز کو ترقی کرنے دیا۔
بھٹو حکومت کو اندازہ تھا کہ مولوی مشتاق بھی ایک دبنگ چیف جسٹس ہوں گے، اس لیے ان کی جگہ پر سینیارٹی کے حساب سے آٹھویں نمبر کے جج جسٹس اسلم ریاض حسین کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا گیا۔
وکلا کے مطابق جسٹس اسلم ریاض حسین کمزور اور غیر موثر جج کے طور پر مشہور تھے، مگر وہ اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار کے دوست تھے۔
مولوی مشتاق کے ساتھ اس ناانصافی کی عدلیہ اور بار دونوں جگہ پر خاصی مزاحمت ہوئی، شور بھی مچا، وکلا نے احتجاج بھی کیا۔ مولوی مشتاق اس زیادتی پر سخت برہم ہوئے۔

بھٹو ریفرنس 2011 میں صدر آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ کو بھیجا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم انہوں نے استعفٰی دینے کے بجائے لاہور ہائی کورٹ ہی میں رہنے کو ترجیح دی ، گو وہ بددلی سے کام کرتے رہے۔

 جنرل ضیا، مولوی مشتاق گٹھ جوڑ

 جنرل ضیا نے مارشل لا لگایا تو جلد ہی انہیں اندازہ ہوگیا کہ عدلیہ کی جانب سے سپورٹ بہت ضروری ہے۔ جنرل ضیا کو بتایا گیا کہ اگر بھٹو کو سبق سکھانا ہے تو مولوی مشتاق حسین ہی سب سے موزوں آدمی ہوگا۔ مولوی مشتاق تب کچھ عرصے کے لیے بیرون ملک گئے ہوئے تھے۔ انہیں واپس بلا کر پہلے چیف الیکشن کمشنر اور پھر قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ لگایا گیا۔ وہ قائم مقام گورنر پنجاب بھی تھے۔
جنرل ضیا ہر حال میں بھٹو سے نجات چاہتے تھے کہ بھٹو صاحب کی سیاسی طاقت تب بھی غیر معمولی اور ناقابل شکست تھی۔
ضیا نے بھانپ لیا تھا کہ پی این اے کی مدد سے بھٹو کو سیاسی شکست نہیں دی جا سکتی۔ اس دوران لاہور ہائی کورٹ کے ایک دلیر اور نڈر جج جسٹس کے ایم صمدانی نے 13 ستمبر 1977کو بھٹو صاحب کی ضمانت لے لی تھی۔
یہ ملٹری حکومت کے لیے بڑا دھچکا تھا۔ بھٹو کو ایک مارشل لا فرمان کے ذریعے پھر سے گرفتار کیا گیا اور پھر مولوی مشتاق کی مدد سے ایک پانچ رکنی بینچ کے ذریعے بھٹو کی ضمانت مسترد کرائی گئی ۔

 بھٹو کا ٹرائل

قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے بھٹو ٹرائل کے لیے پانچ رکنی بینچ کا انتخاب بڑی احتیاط سے کیا اور جسٹس صمدانی کو اس سے باہر رکھا۔
علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال تب ہائی کورٹ کے جسٹس تھے، انہوں نے بھی خود کو الگ رکھا۔
ایک وجہ یہ بھی کہ وہ 1970 کے الیکشن میں بھٹو سے شکست کھا گئے تھے تو ان کے پاس مقدمے سے باہر رہنے کا جواز موجود تھا۔
 لاہور ہائی کورٹ کا بینچ پانچ ججوں مولوی مشتاق، زکی الدین پال، ایم ایس ایچ قریشی، آفتاب حسین اور گلباز خان پر مشتمل تھا۔

بھٹو ریفرنس پر رائے سپریم کورٹ کے لارجر بینج نے متفقہ طور پر دی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ممتاز قانون دان حامد خان نے اپنی کتاب ’پاکستان کی آئینی وسیاسی تاریخمیں لکھا ہے کہ ’مولوی مشتاق نے دانستہ یہ جج منتخب کیے تھے، کیونکہ جسٹس آفتاب حسین مولوی مشتاق کا منظور نظر تھا اور ان کے مطابق ہی چلتا تھا، جبکہ ذکی الدین پال مسلم لیگی ہونے کے ناتے بھٹو کے شدید مخالف تھے جبکہ دوسرے دو جج صاحبان اختلافی فیصلہ نہ لکھنے کی وجہ سے مشہور تھے۔‘
بھٹو کے علاوہ چار دیگر ملزمان بھی شامل تھے ، ان میں فیڈرل سکیورٹی فورسز کا ایک سینیئر افسر میاں عباس اور تین جونیئر افسران غلام مصطفی، ارشد اقبال اور رانا افتخار احمد شامل تھے۔ دس اکتوبر 1977سے ٹرائل شروع ہوگیا۔

 وعدہ معاف گواہ اور اعترافی بیانات

 بھٹو کیس کا ایک بڑا گھٹیا اور شرمناک حصہ وعدہ معاف گواہ کا کردار اورایف ایس ایف کے ملزمان کے اعترافی بیانات ہیں، انہیں قربانی کا بکرا بنا یا گیا تھا۔
یاد رہے بھٹو صاحب کے دور میں فیڈرل سکیورٹی فورسز (FSF)کے نام سے ایک وفاقی فورس بنائی گئی تھی، مسعود محمود نامی ایک پولیس اور انٹیلی جنس افسر اس کا سربراہ تھا۔
بھٹو دور میں اپوزیشن اور ان کے حامی اخبار، جرائد مسلسل یہ کہتے رہے تھے کہ وزیراعظم بھٹو اپنے سیاسی مخالفین کو سبق سکھانے کے لئے اسی ایف ایس ایف کا استعمال کرتے ہیں۔
مسعود محمود تب بھٹو کا منہ چڑھا اور قابل اعتماد ساتھی تھا۔ اس کے کولیگز بعد میں یہ کہتے اور لکھتے رہے کہ وہ انتہائی خوشامدی اور شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار ٹائپ تھا جس نے بھٹو کا اعتماد حاصل کر لیا تھا۔
 بعد میں اسی مسعود محمود نے بھٹو کی پشت میں خنجر گھونپا اور وعدہ معاف گواہ (سلطانی گواہ) بن کر بیان دیا کہ بھٹو نے ایف ایس ایف کو احمد رضا قصور ی کو قتل کرنے کے احکامات دیے تھے، اسی لیے اس پر فائرنگ ہوئی، مگر وہ بچ گیا اور والد احمد خان ہلاک ہوگیا۔
ٹرائل جب ہائی کورٹ میں تھوڑا آگے بڑھا تو ایف ایس ایف کے تینوں جونیئر افسروں نے اعتراف جرم کر لیا کہ ہم نے احکامات کے تحت یہ قتل کیا تھا۔
ٹرائل آگے بڑھتا گیا، بھٹونے ٹرائل کا بائیکاٹ کر دیا۔ لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل کا کچھ حصہ پبلک تھا مگر 25 جنوری 78 کے بعد ٹرائل ان کیمرہ کیا گیا۔
18 مارچ 78 کو لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے متفقہ طور پر بھٹو سمیت پانچوں ملزموں کو سزائے موت سنا دی۔ یہ فیصلہ جسٹس آفتاب حسین نے لکھا تھا۔

 لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل کے نقائص

 کسی بھی قتل کا کیس سیشن کورٹ کے بجائے ہائی کورٹ میں چلنا بذات خود بہت بڑا نقص اورزیادتی ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ ملزم اپنے ایک فورم سے محروم ہوگیا۔ ہائی کورٹ میں کبھی ایسے کیسز نہیں چلتے اور ہائی کورٹ کا یہ کام نہیں کہ وہاں گواہیاں پیش ہوں، ان پر جرح ہو اور دیگر معاملات۔

حامد خان نے مولوی مشتاق حسین اور بینچ کی کارروائی پر اپنی کتاب میں متعدد اعتراضات اٹھائے اور لکھا ہے کہ ’بھٹو کو کبھی شفاف ٹرائل نہیں ملا۔‘ (اے ایف پی)

ہائی کورٹس میں تو قانونی نکات پر بحث ہوا کرتی ہے۔
دوسرا بڑا نقص مولوی مشتاق حسین کا بینچ کی سربراہی کرنا تھا۔ مولوی مشتاق کا بھٹو سے عناد اور بغض مشہور تھا۔ کیس کے دوران بھی مولوی مشتاق کا تعصب اور جانبداری بہت واضح تھی۔
بھٹو صاحب نے بار بار مولوی مشتاق حسین پر اعتراض کیا، درخواستیں کی گئی کہ وہ بینچ سے الگ ہوجائیں۔ معروف عدالتی روایات کے مطابق مولوی مشتاق حسین کو الگ ہوجانا چاہیے تھا، مگر وہ نہایت دیدہ دلیری سے ڈٹے رہے۔
 حامد خان نے مولوی مشتاق حسین اور بینچ کی کارروائی پر اپنی کتاب میں متعدد اعتراضات اٹھائے اور لکھا ہے کہ ’بھٹو کو کبھی شفاف ٹرائل نہیں ملا۔‘
حامد خان کے بقول اہم گواہان کی صداقت سے متعلقہ سوالوں کے جواب ریکارڈ نہیں کیے گئے۔ سرکاری گواہوں سے وکیل صفائی (بھٹو کے وکیل) کو کئی متعلقہ سوالات کی اجازت نہیں دی گئی۔ جرح کے دوران استغاثہ کے گواہان سے کیے گئے سوالات کے جوابات کو غلط اندز میں لکھا گیا۔
سرکاری گواہوں کے بعض ایسے جواب جن سے بھٹو کو فائدہ پہنچ سکتا تھا، ان میں عدالت نے مداخلت کی اور انہیں نہیں بولنے دیا۔
گواہان کی جانب سے عدالت میں دیے گئے بیانات کو بعد میں تبدیل بھی کیا گیا۔
عدالت کی جانب سے سرکاری گواہوں کی شہادت میں ردوبدل، درستگی، جکڑنا اور بہتر بنانا کے عوامل شامل کیے گئے۔
کارروائی کو ریکارڈ کیا گیا، مگر وکیل صفائی کو بار بار استدعا کے باوجود ٹیپ فراہم نہیں کی گئی اور نہ ہی اپنا ٹیپ ریکارڈر لانے کی اجازت دی گئی ۔
 بھٹو اور مولوی مشتاق کے مابین تلخ جملوں کے تبادلے کی بہت سی مثالیں سامنے آئیں، مولوی مشتاق کئی بار بھٹو پر برس پڑتے، انہیں عدالت سے نکال بھی دیا گیا اور بعد میں ان کی غیر حاضری میں عدالتی کارروائی آگے بڑھائی گئی۔
حامد خان کے الفاظ میں ٹرائل غیر موثر بلکہ مذاق بن گیا تھا۔

 سپریم کورٹ میں سماعت

 بھٹو کیس کو سپریم کورٹ کے نو کے نو ججوں یعنی فل کورٹ نے سننا شروع کیا۔ سپریم کورٹ میں کیس بہت طویل ہوا اور کئی مہینے چلا۔ اس میں پیپلزپارٹی کی حکمت عملی بھی کارفرما تھی کیونکہ وہ عالمی سطح پر دباﺅ ڈلوانے کی کوششیں کر رہے تھے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ دو جج صاحبان بینچ سے الگ ہوگئے۔ جسٹس قیصر خان جو بڑے دبنگ اور دیانت دار جج تھے، وہ ریٹائر ہوگئے۔ ان کے بارے میں تاثر تھا کہ وہ شائد بھٹو کو بری کر دیتے۔ اسی طرح جسٹس وحیدالدین احمد (والد جسٹس وجیہہ الدین ) بیمار ہو گئے۔
انہوں نے چیف جسٹس انوار الحق سے درخواست کی کہ چار سے چھ ہفتوں تک سماعت ملتوی کی جائے۔ چیف جسٹس نے اس کے بجائے سماعت جاری رکھی اور یوں سات رکنی بنچ نے کیس سنا۔

بھٹو صاحب کے لگائے گئے صدر فضل الٰہی چودھری جرات اور ہمت کا مظاہرہ کر کے ایوان صدر میں بیٹھے رہنے کے بجائے مستعفی ہوگئے (فوٹو: اے ایف پی)

ایک سال کی طوالت کے بعد چھ فروری 1979کو سپریم کورٹ نے چار تین کی اکثریت سے بھٹو صاحب اور باقی چاروں ملزمان کی درخواستوں کو مسترد کر دیا اور یوں ان پانچوں کو سزائے موت کی سزا فائنل ہوگئی۔

 کس نے بری، کس نے ملزم ٹھہرایا؟

 سپریم کورٹ کے چار ججوں چیف جسٹس انوارالحق، جسٹس محمد اکرم، جسٹس کرم الٰہی چوہان اور جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے بھٹو اور دیگر ملزمات کو سزائے موت کو برقرار رکھا۔ سوا آٹھ سو صفحات پر مبنی فیصلہ چیف جسٹس انوار الحق نے لکھا۔
ان ججوں کے مطابق استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں مکمل کامیاب ہوا۔
 تین جج صاحبان جسٹس غلام صفدر شاہ، جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس حلیم نے بھٹو صاحب کو بری کر دیا۔ جسٹس غلام صفدر شاہ (سسر موجودہ جج سپریم کورٹ اطہر من اللہ) نے اپنے اختلافی فیصلے میں لکھا کہ وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کے بعض بیانات صرف سنی سنائی باتوں کی ذیل میں آتے ہیں، اس لیے بطور شہادت قبول نہیں ہوسکتے جبکہ وعدہ معاف گواہ کوئی قابل اعتماد آدمی نہیں۔
 جسٹس دراب پٹیل کا کہنا تھا کہ مسعود محمود قابل اعتبار گواہ نہیں اور اس قسم کے مقدمے میں ایسی شہادت سے زیادہ ایک معتبر شہادت کی ضرورت تھی ۔ جسٹس حلیم نے جسٹس غلام صفدر شاہ سے اتفاق کیا کہ بھٹو اور میاں عباس کے خلاف جرم ثابت نہیں کیا جا سکا۔ ان تینوں جج صاحبان نے بھٹو کی درخواست قبول کرتے ہوئے انہیں بری کرنے کا حکم دیا، افسوس کہ یہ اقلیتی فیصلہ تھا۔

 اگر فضل الٰہی صدر ہوتے

  پانچوں ملزموں نے نظرثانی کی اپیل دائر کر دی۔ ساتوں ججوں نے سماعت کی اور پھر اپنا فیصلہ برقرار رکھا۔ اب صرف صدر ہی معافی دے سکتا تھا۔ عام روایت یہی ہے کہ اگر سپریم کورٹ کا اختلافی فیصلہ ہو تو موت کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
جنرل ضیا الحق، جو صدر بن چکے تھے، کا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ وہ اپنے سب سے بڑے دشمن سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔
افسوسناک بات یہ کہ بھٹو صاحب کے لگائے گئے صدر فضل الٰہی چودھری جرات اور ہمت کا مظاہرہ کر کے ایوان صدر میں بیٹھے رہنے کے بجائے ستمبر 78 کو ریٹائر ہوگئے۔
جنرل ضیا کے چیف آف سٹاف جنرل کے ایم عار ف کے مطابق فضل الٰہی کمزور شخصیت کے مالک تھے اور انہوں نے دباﺅ سے بچنے کے لیے اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کا فیصلہ کیا۔
تاہم فضل الٰہی چودھری نے بعد میں جنرل ضیا الحق کو بھٹو کے لیے رحم کی اپیل کا خط لکھا تھا۔

 بھٹو کی سزا پر ضیا کابینہ کا ردعمل

 جنرل کے ایم عارف کے بیان کے مطابق جنرل ضیا کی کابینہ نے متفقہ طور پر بھٹو کی سزائے موت پر عملدرآمد کا مشورہ دیا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے ساتھیوں اور وکلا کے کہنے کے باوجود جنرل ضیا سے معافی کی اپیل مانگنے سے انکار کر دیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

یاد رہے کہ تب پی این اے کی بعض پارٹیوں کے اراکین کابینہ میں شامل تھے۔ کابینہ اجلاس کے بعد جنرل ضیا نے چھوٹے گروپوں میں مختلف پارٹیوں کے وزرا سے ملاقاتیں کیں۔ کے ایم عارف ہر ملاقات میں موجود تھے۔ کے ایم عارف نے اپنی کتاب ’ورکنگ ودھ ضیا میں لکھا کہ جماعت اسلامی کے وزرا نے صدر کو بتایا کہ کابینہ نے جو سفارشات دی وہ غیر مبہم، واضح اور متفق علیہ تھیں۔
کابینہ کے بعض وزرا جذباتی ہوگئے، ایک کا خیال تھا کہ بھٹو کو ایک سے زیادہ بار پھانسی کی سزا دی جائے۔ چودھری ظہور الٰہی (والد چودھری شجاعت حسین) نے جنرل ضیا کو ایک ذاتی درخواست دی کہ وہ جو قلم بھٹو کی رحم کی اپیل مسترد کرنے کے لیے استعمال کریں، اسے بطور یادگار انہیں عنایت کر دیں۔

 دی اینڈ

ذوالفقار علی بھٹو  نے ساتھیوں اور وکلا کے کہنے کے باوجود جنرل ضیا سے معافی کی اپیل مانگنے سے انکار کر دیا۔
تاہم بھٹو کی ایک سوتیلی بہن بیگم شہربانو امتیاز نے جنرل ضیا کے ملٹری سیکرٹری کو رحم کی اپیل کی۔ اس سے پہلے قومی اسمبلی کے سپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان نے بھی رحم کی درخواست دی تھی۔
ایک اپیل میاں یاسین وٹو کی جانب سے بھی کی گئی۔ ان اپیلوں کی ایک فائل بعنوان ’سزا یافتہ قیدی ذوالفقار علی بھٹو ولد سرشاہ نواز بھٹو‘ یکم اپریل 1979 کو جنرل ضیا کے پاس وزارت داخلہ کی جانب سے ارسال کی گئی۔
 کے ایم عارف کے الفاظ میں ’یکم اپریل کی شام کو جب رات کی تاریکی پھیل رہی تھی، جنرل ضیا نے اپنے مکان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر معمول کی فائلیں نمٹاتے ہوئے مسٹر بھٹو کی فائل پر لکھا ’درخواست مسترد کی جاتی ہے۔‘ ان پانچ مہلک الفاظ نے مسٹر بھٹو کی زندگی پر مہر مرگ ثبت کر دی۔‘
 چار دن بعدایک منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ڈسٹرکٹ جیل پنڈی میں پھانسی دے دی گئی۔ 24 جولائی 79 کو اس کیس کے باقی چاروں ملزموں کو بھی پھانسی دے دی گئی۔

 کیا بھٹو کو سزا وکلا کی غلطی تھی؟

 ہمارے ہاں کئی باتیں برسوں سے کہی جاتی رہی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بھٹو کے وکلا فوجداری قانون کے ماہر نہیں تھے۔
انہوں نے کیس بہتر طریقے سے نہیں لڑا، اگر کوئی اچھا فوجداری وکیل ہوتا تو بھٹو کو کبھی سزائے موت نہیں ہونی تھی وغیرہ وغیرہ۔

اگر بھٹو زندہ رہتے تو جنرل ضیا کبھی گیارہ سال تک حکومت نہ کر پاتے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

 ممکن ہے کسی زمانے میں ان باتوں پر یقین کر لیا جاتا، مگر اب جب کہ اتنا کچھ سامنے آ چکا ہے، جنرل ضیا کے ساتھیوں خاص کر جنرل فیض علی چشتی کی کتاب، بھٹو کے جیل کے سپرنٹنڈنٹ کی کتاب، روئیداد خان کی کتاب اور بہت کچھ دیگر مواد کے سامنے آنے کے بعد تو یہ بات ماننا مشکل ہے۔
 یہ حقیقت ہے کہ جنرل ضیا ہر حال میں بھٹو سے نجات پانا چاہتا تھا اور لاہور ہائی کورٹ میں چیف جسٹس مولوی مشتاق نے بھٹو کو سزائے موت دینا ہی تھی، چاہے دنیا کے ٹاپ فوجداری وکلا آ جاتے۔
اگر بھٹو زندہ رہتے تو جنرل ضیا کبھی گیارہ سال تک حکومت نہ کر پاتے۔
یہی ایک دلیل ہے کہ بھٹو کو ہر حال میں موت کے گھاٹ اتارنا طے تھا۔ ضیا نے اپنی طرف سے ہوشیاری کرتے ہوئے ملٹری کورٹ کے بجائے سول عدالتوں کو استعمال کیا، مگر بہرحال اس کا ذمہ دار ہر ایک نے جنرل ضیا ہی کو سمجھا۔

 رائیٹ ونگ کی ندامت

 پاکستانی رائٹسٹ روایتی طور پر اینٹی پیپلزپارٹی تھے۔ بھٹو دور میں ان میں سے کئی سینیئر صحافی اور لکھاریوں کو جیل بھی جانا پڑا۔ جماعت اسلامی اور دینی جماعتوں کے لوگوں نے بھی بڑی مشکلات برداشت کیں۔ اسی وجہ سے یہ سب بھٹو کی پھانسی کے زبردست حامی تھے۔ کئی عشروں تک یہ دفاع بھی کرتے رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ پاکستانی رائٹ ونگ بھی کسی حد تک اس ایشو پر پسپا ہوا،ان کی رائے نرم ہوئی۔
مسلم لیگ جو ایک زمانے میں بھٹو کی شدید مخالف تھی، اس کی آج یہ پوزیشن ہے کہ اس کا صدر شہباز شریف سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد پیپلزپارٹی کے چیئرمین کو مبارک باد کا پیغام دیتا ہے۔

شیئر: