سوشل میڈیا پر نوکری کا جھانسہ، بے قصور سعودی لڑکی ’ملزمہ‘ کیسے بنی؟
مجھے کہا گیا کہ شناختی کارڈ کا نمبر اور پرسنل موبائل نمبر ارسال کریں (فائل فوٹو: المرصد)
سوشل میڈیا پر پرکشش نوکری کے اشتہار نے بے قصورسعودی لڑکی کو ’ملزمہ‘ بنا دیا۔
جعل سازوں نے آن لائن جاب کا جھانسہ دے کر لڑکی کا شناختی کارڈ حاصل کیا اور متعدد بینک اکاونٹ کھولے جہاں دھوکے سے لوگوں سے حاصل کی جانے والی رقم منتقل کی جاتی تھی۔
اخبار 24 کی رپورٹ کے مطابق مکہ مکرمہ سے تعلق رکھنے والی سعودی لڑکی نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ’سوشل میڈیا پر اس ایک اشتہار دیکھا جو ڈیجیٹل اکاونٹینٹ سے متعلق تھا۔‘
’اشتہار میں موجود نمبر پر رابطہ کرنے پر جعل سازوں نے لڑکی کو 5 ہزار ریال ماہانہ تنخواہ کی آفر کی گئی۔ ساتھ کہا گیا کہ تمام معاملات ’واٹس اپ ‘ پر کیے جائیں گے۔‘
جعل سازوں نے نوکری کے لیے شرط رکھی کہ بینک اکاونٹ کا ہونا ضروری ہے۔
متاثرہ لڑکی نے بتایا کہ’ میرا کوئی بینک اکاونٹ نہیں تھا جس پر مجھے کہا گیا کہ اپنے شناختی کارڈ کا نمبر اور پرسنل موبائل نمبر ارسال کریں جس پر ’اوٹی پی‘ کوڈ آتا ہے۔‘
’ملازمت کے حصول کے لیے مطلوبہ معلومات فراہم کردیں اور بینک کی جانب سے آنے والے اوٹی پی بھی فوری طورپر ارسال بھیج دیے۔‘
جعل سازی کی کارروائی کے بارے میں لڑکی نے مزید بتایا کہ’ملازمت کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکا کہ میری ذمہ داری کیا ہے۔ دوسرے ہفتے میں نے دریافت کیا کہ جو اوپی ڈی مجھے موصول ہوتے ہیں اس کا آپ کیا کرتے ہیں؟۔‘
جس انسٹا گرام پر اشتہار آیا تھا وہ دراصل مختلف پروگرامز کے ٹکٹیں فروخت کرنے سے متعلق تھا۔ ان سے ملازمت کی ذمہ داریوں کے بارے میں متعدد بار استفسار کیا مگر کبھی تسلی بخش جواب نہیں ملا، ہر بار یہی کہتے تھے کہ آپ ڈیجیٹل اکاونٹنٹ ہیں جو بھی رقم آپ کے اکاونٹ میں آئے اسے فوری طور پر ہمیں منتقل کردیں۔
متاثرہ لڑکی کا کہنا تھا کہ’ اسی طرح ایک ہفتہ اور گزر گیا مجھے اس کام میں کچھ گڑ بڑ محسوس ہوئی تو دوسرے ہفتے ہی ان سے قطع تعلق کر لیا اور مطمئن ہو گئی کہ اب ان سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔ گھر والوں کو بھی کچھ نہیں بتایا۔‘
واقعے کو دس ماہ گزر چکے تھے کہ اچانک ایک دن مدینہ منورہ پولیس کی کال آئی جس میں کہا گیا کہ اسٹیشن میں رپورٹ کریں آپ پر جعل سازی کا کیس ہے۔ یہ سن کر میں پریشان ہو گئی، دوسرے دن مکہ مکرمہ پولیس کی کال آئی اور انہوں نے بھی مجھے اسٹیشن میں طلب کیا کیونکہ میرے خلاف رقم ہتھیانے کا کیس مکہ پولیس میں درج تھا۔ مجھے لاک اپ میں بند کردیا گیا۔ بعدازاں گھروالوں نے میری ضمانت کرائی۔ اسی ہفتے میں دمام پولیس اسٹیشن سے بھی کال آئی جہاں وہی مقدمہ میرے خلاف تھا یعنی میں نے لوگوں سے رقوم اپنے اکاونٹ میں منتقل کیں۔
کیس کے حوالے سے لڑکی نے ایک وکیل سے رجوع کیا جس نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ مفت اس کیس کو لڑیں گے۔
وکیل کا کہنا تھا دو پوائنٹ اس کی موکلہ کے حق میں جاتے ہیں۔ نمبر ایک اس نے وہ تمام کراسپنڈنٹ جو گروہ کے ارکان کے ساتھ ہوئی تھی محفوظ رکھی جبکہ دوسرا نکتہ یہ کہ جو رقم خاتون کے اکاونٹ میں منتقل ہوئی تھی وہ ذاتی استعمال میں خرچ نہیں کی۔
متاثرہ لڑکی کا کہنا تھا’ میری سب سے بنیادی غلطی یہ تھی کہ اپنے شناختی کارڈ کا نمبر اور دیگر اہم معلومات انہیں دی تھیں جس کا خمیازہ مجھے بھگتنا پڑا۔‘