’سوچ بدل رہی ہے‘، بلوچستان میں پانچ خواتین ڈپٹی کمشنر
’سوچ بدل رہی ہے‘، بلوچستان میں پانچ خواتین ڈپٹی کمشنر
جمعرات 9 مئی 2024 9:42
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
بلوچستان کے اتنے اضلاع میں پہلی بار بیک وقت خواتین افسران کا تقرر کیا گیا ہے (فوٹو: سی ایم)
بلوچستان حکومت نے مزید دو اضلاع میں خواتین افسران کو بطور ڈپٹی کمشنر تعینات کر دیا ہے۔ اس طرح صوبے میں ڈپٹی کمشنر کے عہدوں پر تعینات خواتین افسران کی تعداد پانچ تک پہنچ گئی ہے۔
بلوچستان کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے کہ اتنے زیادہ اضلاع میں بیک وقت خواتین افسران کا ضلعی انتظامیہ کے سربراہان کے طور پر تقرر کیا گیا ہے۔
اس تعیناتی کو بلوچستان کے قدامت پسند قبائلی معاشرے میں خواتین کی ترقی اور اہم شعبوں میں شمولیت کی جانب اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن بلوچستان کے مطابق بلوچستان سول سروسز (بی سی ایس )کی گریڈ 18 کی افسر فریدہ ترین کو ڈپٹی کمشنر صحبت پور اورحمیرا بلوچ کو ڈپٹی کمشنر لسبیلہ تعینات کردیا گیا ہے۔
اس سے پہلے 24 اپریل کو ایک اور حکمنامے کے ذریعے بی سی ایس گریڈ 18 کی افسر روحانہ گل کاکڑ کو ڈپٹی کمشنر حب جبکہ عائشہ زہری کو ڈپٹی کمشنر آواران مقرر کیا گیا۔
وفاقی سول سروسز( پی اے ایس ) کی گریڈ اٹھارہ کی افسر بتول اسدی ستمبر 2023 سے ڈپٹی کمشنر نصیرآباد کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ اس طرح صوبے کے 36 اضلاع میں سے پانچ کی ضلعی انتظامیہ کی سربراہان خواتین ہو گئی ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی نے اس عمل پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں نئی اور اہم کامیابی کا جشن منا رہا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر اپنے بیان میں سرفراز بگٹی نے کہا کہ وہ بلوچستان میں خواتین کو با اختیار بنانے کی جانب ایک اہم سنگ میل کا اعلان کرتے ہوئے پرجوش ہیں۔
’اب ہمارے پاس پانچ قابل ذکر خواتین مختلف اضلاع میں ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ یہ خواتین کی ترقی اور شمولیت سے متعلق ہمارے عزم کا ثبوت ہیں۔‘
پہلی مرتبہ ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر تعینات ہونے والی فریدہ ترین نے اُردو نیوز سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بیک وقت بلوچستان کے پانچ اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز کی تعیناتی بیورو کریسی میں خواتین کی متنوع نمائندگی اور شراکت داری کی جانب اہم قدم ہے۔ اس سے بلوچستان کا مثبت تشخص اجاگر ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ایک اچھا پیغام بھی ملے گا۔‘
فریدہ ترین سمجھتی ہیں کہ بلوچستان کے مخصوص سماجی ڈھانچے کی وجہ سے بہت سے شعبوں میں خواتین نہیں آتیں۔ ’بیورو کریسی بھی ایسا ہی شعبہ ہے جہاں کچھ برسوں پہلے تک خواتین نہیں آتی تھیں بالخصوص فیلڈ میں کام کرنے والوں میں کوئی خاتون افسر شامل نہیں تھی۔‘
ان کے بقول ’1992 میں سائرہ عطا بلوچستان کی پہلی خاتون افسر تعینات ہوئی تھیں وہ آج سیکریٹری کے عہدے تک پہنچ گئی ہیں لیکن انہوں نے کبھی فیلڈ میں کام نہیں کیا۔ اس طرح یہ عام تاثر بن گیا تھا کہ خواتین میدان میں جا کر کام نہیں کرسکتیں۔‘
فریدہ ترین کا کہنا ہے کہ ’آج خواتین نے اپنی صلاحیت اور کام سے یہ تصور ختم کر دیا ہے۔ اس وقت 8 خواتین بلوچستان سول سروسز کا حصہ بن کر فیلڈ میں کام کر رہی ہیں جبکہ سول سیکریٹریٹ میں پانچ خواتین بطور افسر خدمات انجام دے رہی ہیں۔‘
ڈپٹی کمشنر حب تعینات ہونے والی روحانہ گل کاکڑ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’بلوچستان میں مسائل بہت زیادہ ہیں کم وسائل کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں اس لیے ہمیں زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ ‘
انہوں نے کہا کہ ’مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں سول سروسز میں آنے کے بعد کبھی وقت پر گھر پہنچی ہوں۔ کام کا بوجھ ہوتا ہے لیکن سینیئر افسران کی سپورٹ، ماتحت عملے کی محنت اور لوگوں کا احترام دیکھ کر مشکلات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔‘
اسی طرح ڈپٹی کمشنر لسبیلہ حمیرہ بلوچ نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ آبادی کا نصف سے زائد حصہ خواتین پر مشتمل ہےانہیں برابر کے مواقع ملنے چاہیں۔ ’خواتین نے بیورو کریسی سے لے کر پارلیمنٹ تک ہر شعبے میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ اگر انہیں مزید مواقع ملے تو ملک و قوم کی بہتری کے لیے اچھا کام کر سکتی ہیں۔‘
پہلی مرتبہ ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر تعینات ہونے والی فریدہ ترین کا کہنا ہے کہ ’ہمیں فیلڈ میں کام کرتے ہوئے دیکھ کر لڑکیوں کی ہی نہیں بلکہ ان کے والدین اور لوگوں کی سوچ میں بھی تبدیلی آ رہی ہے۔ وہ ہمیں دیکھ کر اگر اپنی بیٹیوں کو افسر نہیں بنائیں گے تو کم از کم پڑھائیں گے ضرور۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سول سروسز میں آنے والی تمام خواتین اپنے بل بوتے پر اس مقام تک پہنچی ہیں۔ ان عہدوں تک پہنچنا آسان نہیں تھا ۔ ہم نے خاندان اور معاشرے کے دباؤ اور بہت سی دیگر رکاوٹوں کا مقابلہ کیا ہے۔‘
خاتون ڈپٹی کمشنر کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے انتظامی ڈھانچے میں زیادہ تر سٹیک ہولڈرز خواتین افسران کو اپنے علاقوں میں اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے عہدوں پر تعینات کرنے سے کتراتے تھے لیکن اب وہ خواتین افسران کی کارکردگی دیکھ کر اپنی سوچ بدل رہے ہیں۔
فریدہ ترین کا کہنا ہے کہ خواتین افسران کو خواتین کی مشکلات کا احساس اور بہتر سمجھ ہوتی ہے کیونکہ وہ خود ان مشکلات سے گزری ہوتی ہیں اس لیے وہ صحت، تعلیم سمیت دیگر مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے اصلاحات کے لیے بنائے گئے سیل کے رکن غلام علی بلوچ نے سوشل میڈیا پر اپنے تبصرے میں کہا کہ ’یہ ہماری باصلاحیت خواتین کی سماجی ترقی کی تحریک میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ خواتین افسران کو سیکرٹریز، کمشنرز، صوبائی، ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ ڈائریکٹرز صحت، تعلیم، کھیل، زراعت، لائیو سٹاک وغیرہ کے اہم عہدوں پر تعینات کرنے کی ضرورت ہے۔‘
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’عورت فاؤنڈیشن‘ کے بلوچستان میں سربراہ علاؤ الدین خلجی نے خواتین افسران کی کلیدی عہدوں پر تعیناتی کو خوش آئند قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ’یہ خواتین کی صلاحیتوں کا اعتراف اور مثبت تبدیلی کی علامت ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اب خواتین افسران اپنی قابلیت سے دقیانوسی تصورات کو چیلنج کر کے سول سروسز، پولیس اور فوج سمیت دیگر شعبوں میں اپنی جگہ بنا رہی ہیں۔
’آواران جیسے بدامنی کے شکار ضلع میں ڈپٹی کمشنر ایک خاتون کو تعینات کرنا اس تاثر کو ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا کہ صرف مرد ہی سکیورٹی کے مسائل جیسے اہم چیلنجز سے نمٹ سکتے ہیں۔‘
خواتین ڈپٹی کمشنرز میں کون کون شامل؟
بتول اسدی:
ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے بلوچستان میں کام کرنےوالی خواتین افسران میں سب سے سینئر بتول اسدی ہیں جن کا تعلق کوئٹہ کے ہزارہ قبیلے سے ہے۔ ان کے شوہر بھی بیورو کریٹ ہیں۔
سول سروسز کا حصہ بننے سے پہلے بتول اسدی کوئٹہ کی بیوٹمز یونیورسٹی میں انگریزی کی لیکچرار تھیں۔
2016 میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز میں شامل ہونے والی بتول اسدی نے بلوچستان سے پہلے پنجاب کے شہر رحیم یار خان میں خدمات سرانجام دیں۔ اس کے بعد وہ 2017 میں بلوچستان کی سب سے پہلی خاتون اسسٹنٹ کمشنر بنیں۔
انہوں نے اسسٹنٹ کمشنر کوئٹہ، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو، ڈپٹی سیکریٹری ٹو چیف سیکریٹری اور گریڈ 17 سے گریڈ 18 میں ترقی پانے کے بعد ایڈیشنل سیکریٹری کوسٹل ڈویلپمنٹ اینڈ فشریز سمیت مختلف عہدوں پر کام کیا۔
بتول اسدی نگراں دور حکومت میں ڈپٹی کمشنر نصیرآباد تعینات ہوئیں اور انہوں نے دورانِ سروس سکالر شپ حاصل کرکے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے پبلک پالیسی میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔
عائشہ زہری:
عائشہ زہری کو بلوچستان کے حساس ترین اضلاع میں سے ایک آواران کی ڈپٹی کمشنر تعینات کیا گیا ہے۔ یہ ایسا ضلع ہے جس میں مرد افسران بھی جانے سے کتراتے ہیں۔
عائشہ زہری کا تعلق خضدار اور بلوچوں کے زہری قبیلے سے ہے۔ انہوں نے خضدار انجینیئرنگ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر رکھی ہے اور دو مرتبہ طلائی تمغے حاصل کیے۔
2017 میں مقابلے کا امتحان پاس کرکے صوبائی سول سروسز کا حصہ بننے سے پہلے وہ واپڈا میں ایس ڈی او تھیں۔
انہوں نے سول سیکریٹریٹ میں ایس اینڈ جی اے ڈی، زراعت سمیت مختلف محکموں میں سیکشن افسر اور ڈپٹی سیکریٹری کے عہدوں کے علاوہ تفتان، دشت، مچھ میں بطور اسسٹنٹ کمشنر کام کیا۔
عائشہ زہری نے تفتان میں اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے دور دراز اور حساس علاقوں میں مغوی نوجوان کی بازیابی اور منشیات پکڑنے کے لیے آپریشن کی قیادت کی۔
منشیات برآمدگی کے اس کیس میں ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے ساتھ تنازع کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
مچھ میں 2022 کے سیلاب میں پھنسنے والے خواتین و بچوں سمیت درجنوں افراد کی جانیں بچانے پر وزیراعظم شہباز شریف نے ان کی ستائش کی اور بعد ازاں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
مچھ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر عائشہ زہری کو 2023 میں ڈپٹی کمشنر نصیرآباد تعینات کیا گیا۔ انہیں ڈپٹی کمشنر کے عہدے تک پہنچنےو الی صوبے کی پہلی خاتون کا اعزاز حاصل ہے۔
روحانہ گل کاکڑ:
روحانہ گل کاکڑ کا تعلق کوئٹہ اور پشتونوں کے کاکڑ قبیلے سے ہے۔ انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے اور وہ 2017 میں مقابلے کا امتحان پاس کرکے سول سروسز کا حصہ بنیں۔
وہ ڈائریکٹر بی پیپرا، سیکریٹری ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی، اسسٹنٹ کمشنر ژوب، اسسٹنٹ کمشنر حب اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو لسبیلہ کے عہدوں پر کام کر چکی ہیں۔
انہیں ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی (آر ٹی اے) کی سیکرٹری کی حیثیت سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر 2019 میں انٹیگریٹی آئیکون ایوارڈ سے نوازا گیا۔
فریدہ ترین:
فریدہ ترین کا تعلق بلوچستان کے ضلع پشین اور پشتونوں کے ترین قبیلے سے ہے اور انہوں نے لاہور سے پولیٹیکل سائنسز میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔
انہیں سندھ سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع صحت پور کے انتظامی سربراہ کا عہدہ دیا گیا ہے۔ وہ پہلی مرتبہ ڈپٹی کمشنر تعینات ہوئی ہیں۔
فریدہ ترین 2017 میں مقابلے کا امتحان پاس کرکے سول سروسز کا حصہ بنیں۔ انہوں نے اس سے پہلے اسسٹنٹ کمشنر خاران، اسسٹنٹ کمشنر دشت ، ڈپٹی سیکریٹری ٹو چیف سیکریٹری ، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو لورالائی اور ایس اینڈ جی اے ڈی میں سیکشن افسر اور ڈپٹی سیکریٹری کے عہدوں پر کام کیا ہے۔
2021 میں فریدہ ترین کا ڈیڑھ ماہ کے دوران چار مرتبہ تبادلہ کیا گیا تھا جس پر حکومت کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
حمیرہ بلوچ:
حمیرہ بلوچ کا تعلق کوئٹہ سے ہے اور انہوں نے اپنی تعلیم بھی اسی شہر سے حاصل کی۔ انہوں نے کامرس اور انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔
حمیرہ بلوچ 2018 میں پی سی ایس کا امتحان پاس کر کے سول سروسز کا حصہ بنیں۔ وہ سول سیکریٹریٹ اوروزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں ڈپٹی سیکریٹری اور کوئٹہ میں اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے چکی ہیں۔