Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماؤں کا عالمی دن: دو دنیاؤں کی ماں تجھے سلام

غزہ میں جنگ میں سب سے زیادہ خواتین اور بچے متاثر ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ہر سال کی طرح اس سال بھی ماں سے محبت کے اظہار کے لیے 12 مئی کو دنیا بھر میں ماؤں کا عالمی دِن منایا جا رہا ہے۔
سب کی طرح ہمارے ہاں بھی یہ دِن جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا اپنی امی کے لیے تو تحائف، کیک اور پھول کی روایت ہمیشہ ہی قائم رکھی مگر اپنی بیٹی کی پیدائش کے بعد شوہر سے بھی اسِ دِن کو منانے کی مانگ پورے زور و شور سے ہونے لگی۔ کبھی یہ مانگیں پوری ہو جاتیں اور کبھی بیٹی کے ہوش سنبھالنے کے انتظار میں یہ دن اپنی روایات میں کھوئے گزر جاتا۔
اسِ مرتبہ معاملہ کچھ پلٹتے نظر آیا جب گذشتہ ہفتے میری بیٹی نے سکول سے آتے ہی مجھے اور میری امی کو ’مڈرز ڈے‘ کی آمد سے آگاہ کیا۔ جو چمک اُس کی آنکھوں میں تھی وہ تو شاید ناقابل ِ بیان ہو مگر میری سوچ کی بساط مجھے فلسطین میں بربریت کی لگی آگ، اس میں جلتی ماؤں اور سسکتے بچوں کے پاس لے گئی۔
پل بھر میں سوشل میڈیا پر لہولہان تصویریں آنکھوں کے سامنے ایک تلخ ترین حقیقت بن کر گھومنے لگیں، روح کانپ اٹھی۔ آنکھیں بھر آئیں۔ بیٹی کی آواز نے سوچ پر پھیلی تلخی کو جب جھنجوڑا تو خود کو سمجھا کر اپنی دنیا میں واپس آ گئی، جہاں مجھے آج بھی اپنی ماں کی آواز میں سکون، ماں کی ایک جھلک میں زندگی اور ماں کے گھر میں اپنی جنت نظر آتی ہے۔
دِن کا آغاز ہو یا اختتام، خوشی ہو یا غم، کامیابی ہو یا زندگی سے ملا سبق، انسانوں کی بھیڑ ہو یا تنہائی، بس اپنی ماں ہی چاہیے اور یقیناً یہی کیفیات ہر ماں کے لیے اُس کی اولاد کے دِل میں ہوں گی۔ پھر وہ کمسِن بچے اپنی ماؤں کے بغیر رات کیسے کاٹتے ہوں گے۔ اور وہ مائیں اپنے لخت جگر کو منوں مٹی تلے دبا کر کیسے سانس لیتی ہوں گی؟ اسُ دِن سے صرف ایک سوال کا جواب تلاش کر رہی ہوں کہ کیا فلسطین کی دنیا کی مائیں میری اور آپ کی دنیا کی ماؤں جیسی نہیں ہیں؟
عباس تابش صاحب فرماتے ہیں
اک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
شاید فلسطین کی دنیا میں بچوں کے ڈر کا مفہوم بھی ہماری دنیا سے مختلف ہو گا اور ماں کے صبر کا پیمانہ بھی۔ روح کی کپکپاہٹ اور سوچ کے اُلجھن میں فلسطین کی بے بس ماں کو سلام پیش کرنے کی جسارت تو کی ہے مگر یقین جانیے شاید مزید تحریر کرنا مشکل ہو۔ ہو سکے تو ضرور سوچیے گا کہ اِن بچوں کی چیخوں اور ماؤں کی آہوں کی سنوائی ہماری دنیا تک کیوں نہیں ہوتی؟ کوئی معاہدہ کوئی قرارداد، کوئی امن کے فروغ کی دعویدار تنظیم یا کوئی عالمی طاقت فلسطین کی دنیا کی ماؤں کے درد کا مداوا کیوں نہیں کرسکتی؟
مگر کیا ہم سوچیں گے؟ ہرگز نہیں! ہم انسانی حقوق کے علمبردار اور مہذب دنیا کے باشندے اِس سال کی شبِ براتوں اور عیدوں کے بعد یہ مڈرز ڈے بھی خوب دھوم دھام سے منائیں گے کیونکہ ہماری دنیا کا اُس سسکتی ہوئی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔

ڈاکٹر عائشہ اشفاق پنجاب یونیورسٹی، لاہور میں ڈیپارٹمنٹ آف میڈیا اینڈ ڈویلپمنٹ کمییونیکیشن کی چئیرپرسن ہیں۔

 

شیئر: