خاص قسم کی کشتی پر 30 سے 40 ماہی گیر سوار ہو کر موتیوں کی تلاش میں کھلے سمندر میں نکل جاتے ہیں۔ یہ فن صدیوں سے اس علاقے میں آمدن کا منافع بخش کاروبار بھی رہا ہے۔
جزائر فرسان کے رہائشی شیخ محمد بن ہادی الراحجی نے بحیرہ احمر سے موتی نکالنے کے سفر کے بارے میں گفتگو کی ہے۔
موتیوں کی تلاش میں جانے والی کشتی کے مالک سمندر میں گزارنے والی مدت کے لیے ساتھی ماہی گیروں کے خاندانوں کو غذائی ضروریات فراہم کرتے ہیں۔
ماہی گیری کشتی کا مکمل معائنہ کرنے کے بعد دوران سفر کی ضروریات کے اہتمام میں خشک خوراک مکئی اور گندم کے علاوہ مٹی کے گھڑوں میں پینے کا پانی رکھا جاتا ہے۔
محمد الراجحی نے بتایا کہ پرل فشنگ کا اہتمام مئی کے شروع میں کیا جاتا ہے جو تین سے چار ماہ جاری رہتا ہے اس موسم میں سمندر سے موتی ملنا آسان ہے۔
ماہی گیر جزائر کے درمیان المعدن علاقے کا رخ کرتے ہیں جہاں موتیوں سے بھری سیپیاں کثیر تعداد میں پائی جاتی ہیں۔
ماہر ماہی گیر محمد الرحجی نے بتایا کہ موتی کی تلاش میں غوطہ خوری کو پانچ دنوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، ابتدائی پانچ دن میں نکالی جانے والی سیپیاں غوطہ خوروں کے لیے ہوتی ہیں جب کہ پانچویں دن نکالی جانی والی سیپیاں کشتی کے مالک کے لیے ہوتی ہیں۔
موتی نکالنے کے لیے غوطہ خور جسم کے ساتھ وزن اور ایک رسی باندھ کر تقریبا 12 میٹر گہرائی میں اترتے ہیں ، رسی کا دوسرا سرا کشتی میں سوار ان کے ساتھی کے پاس ہوتا ہے جو انہیں سگنل ملنے پر واپس اوپر کھینچتا ہے۔
اس خاص ماہی گیری کے لیے فجر کی نماز کے بعد غوطہ خوری شروع ہو جاتی اور یہ کام دوپہر تک جاری رہتا ہے کچھ آرام کے بعد ماہی گیر نکالی گئی سیپیاں کھول کر موتی اکٹھے کرنے کا کام کرتے ہیں۔
موتیوں کی تاجر مختلف اوزاروں اور تانبے کی مدد سے موتیوں کی اقسام اور حجم کے لحاظ سے چھانٹی کرتے ہیں۔
سمندر سے نکالے گئے موتیوں کے تاجر سلیمان بلاؤس نے بتایا کہ وزن اور حجم کے لحاظ سے موتیوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے، خوبصورت اور گول موتی کو ’الدانہ‘ کہا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ چھوٹے سائز اور مختلف اشکال کے موتیوں کو پہچان کے لیے ’المزوری ، الانصار اور البدلہ کے نام دئیے جاتے ہیں۔
موتیوں کی تلاش کے دوران تھکاوٹ دور کرنے کے لیے ماہی گیر علاقائی گیت گاتے ہیں جو فرسان کی قدیم ثقافت کا حصہ ہے۔
موتیوں کی منافع بخش تجارت نے زمانہ قدیم سے ایک خاص طبقے کو متعارف کرایا ہے جو خلیجی عرب ممالک، یورپ اور خاص طور پر انڈیا میں موتیوں کی بڑی مارکیٹ میں پہچانا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ قدیم دور میں فرسان کے علاقے میں موتیوں کی تجارت اقتصادی لحاظ سے اہم رہی ہے اور یہ جزائر کے ورثے اور قدیم ثقافت کا حصہ تھی۔
سعودی عرب کی مزید خبروں کے لیے واٹس ایپ گروپ جوائن کریں