پورن بھگت، جس کے ذکر کے بغیر پنجاب کی لوک روایت کا احاطہ ممکن نہیں
جمعرات 20 جون 2024 9:04
علی عباس۔ لاہور
کہا جاتا ہے کہ بابا گرو نانک، گرو گورکھ ناتھ، گرو بال ناتھ، راجا سلواہن، راجا بھرت ہری نے یہاں حاضری دی۔ فوٹو بشکریہ: رانا عثمان
یہ سیال کوٹ کے راجا سالباہن کی کہانی نہیں ہے۔ وہ مگر اس کہانی کا ایک کردار ضرور ہیں۔ یہ راجا رسالو کی کہانی بھی نہیں ہے جن کی مہم جوئی پنجاب دھرتی میں ماورائی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
یہ راجا سالباہن کی ملکہ لونا کی یکطرفہ محبت کی داستان نہیں بلکہ یہ سیال کوٹ کے تاریخی شہر کے ماورائی شہزادے پورن بھگت کی کہانی ہے جن کے ذکر کے بغیر پنجاب کی لوک روایت ہمیشہ ادھوری رہے گی۔
اس کہانی میں ایک کردار ملکہ اچھراں کا بھی ہے جن کے نام سے شہر بے مثل لاہور کے علاقے اچھرہ کو منسوب کیا جاتا ہے۔
شہزادہ پورن بھگت اسی راجا سالبان اور ملکہ اچھراں کے بیٹے تھے۔ وہ پیدا ہوئے تو اس دور کی روایت کے مطابق دور دراز سے جوتشی بلائے گئے اور ان کے مشورے پر ہی بادشاہ نے اپنے بیٹے کو خود سے الگ کر دیا۔ پورن بھگت اگلے بارہ سال تک راجا سالبان سے دور رہے۔
راجا اس دوران نچلی ذات کی ایک لڑکی لونا کو بیاہ لائے۔ پورن بھگت بارہ برس بعد شاہی محل میں واپس لوٹے تو وہ نوجوانی میں قدم رکھ چکے تھے۔ ان کی سوتیلی ماں لونا ان کی ہم عمر ہی تھی۔ وہ پورن بھگت سے یکطرفہ محبت کرنے لگی۔ لونا چوں کہ شہزادے کی سوتیلی ماں تھی تو ان کے لیے اس رشتے کو آگے بڑھانا ممکن نہیں تھا۔
پورن بھگت کے لیے جب لونا کی رومانی پیش رفت کو روکنا مشکل ہو گیا تو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں لونا کو منع کر دیا۔
وہ شہزادے کے اس رویے کو برداشت نہ کر سکی۔ اس نے اس وقت ایک سازش رچی اور راجا سالباہن کو شہزادے کے خلاف بھڑکانے لگی۔ راجا اپنی ملکہ لونا کی باتوں میں آ گیا اور سپاہیوں کو شہزادے کا سر کاٹ دینے کا حکم ہوا۔
راجا کا حکم تھا، تعمیل ہوئی۔ شہزادے کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس کی لاش قریب ہی جنگل میں ایک کنویں میں پھینک دی گئی۔
گورو گورکھ ناتھ ایک روز اپنے چیلوں کے ساتھ اس راستے سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے کنویں میں سے آواز سنی۔ وہ چونک گئے۔ ان کی کرامت سے شہزادہ زندہ ہو گیا جو بعد میں بابا گورکھ ناتھ کے چیلوں میں شامل ہو گیا اور انہوں نے ٹلہ جوگیاں میں قیام کیا۔
روایت ہے کہ ٹلہ جوگیاں کے ٹیلے پر موجود سمادھی پورن بھگت کی ہے۔ کہانی آگے بڑھانے سے قبل کچھ ذکر گرو گورکھ ناتھ کا ہو جائے جو ہندو مذہب میں مہایوگی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کا ذکر کبیر اور گورونانک کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔
یہ کہانی مگر یہاں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ کچھ برس بیتے تو پورن کو بھگت کا درجہ مل گیا۔ ان کی روحانی طاقت کا ذکر دور دراز کے علاقوں میں ہونے لگا۔ لونا کو اس بارے میں معلوم ہوا تو وہ راجا کے ساتھ ان کے درشن کرنے کے لیے کنویں پر آئی۔ وہ اس وقت تک بے اولاد ہی تھی۔ انہوں نے راجا اور لونا کے گھر بیٹا ہونے کی دعا دی اور ساتھ ہی پورن کے بارے میـں پوچھا۔ لونا نے ساری کہانی سنا ڈالی جس پر پورن بھگت نے بھی اپنی شناخت ظاہر کر دی۔
راجا اور لونا یہ سن کر حیران رہ گئے، وہ اپنے کیے پر پشیمان ہوئے اور پورن سے واپس سلطنت لوٹ آنے کی درخواست کی جس پر انہوں نے کہا کہ سلطنت پر اب ان کے جلد پیدا ہونے والے شہزادے کا حق ہے۔
روایت ہے کہ پورن بھگت نے اپنا سارا جیون اس کنویں کے کنارے بتا دیا۔ راجا نے اس کے اردگرد ایک بہت بڑی عمارت تعمیر کروائی جس کے آثار ہی باقی بچے ہیں۔ کنواں آج بھی سیال کوٹ میں موجود ہے جسے پورن بھگت کی اس ماورائی کہانی سے منسوب کیا جاتا ہے۔
پورن کو بابا سہاج ناتھ جی کے نام سے بھی جانا ہے جو ہندوئوں کی جنڈیال برادری کے لیے بھگوان کا سا درجہ رکھتے ہیں۔ تقسیم سے قبل جنڈیالوں نے سیال کوٹ میں مندر تعمیر کیا تھا مگر تقسیم کے بعد وہ انڈیا ہجرت کر گئے تو انہوں نے آگرہ، جموں اور ادھم پور میں مندر تعمیر کیے۔
اس کہانی کو شیو کمار بٹالوی نے لونا کے نام سے شاعری میں کچھ یوں سمویا کہ لوگ اَش اَش کر اٹھے۔ کہانی میں انہوں نے لونا کو ولن کے طور پر پیش نہیں کیا بلکہ ان حالات کو بیان کیا ہے جن کے باعث لونا ایسا کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ اس کہانی میں لوک روایات سے ہٹ کر ایک نوعمر لڑکی کی تکلیف کو بیاں کیا گیا ہے جس کی اس سے عمر میں کئی سال بڑے مرد سے شادی کر دی جاتی ہے اور وہ جس مرد کے عشق میں مبتلا ہوتی ہے، وہ اس کی محبت کو رَد کر دیتا ہے۔
پنجابی ادب کے اس شاہکار کی تخلیق پر شاعر کو سال 1967 کے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے کم عمر ترین شاعر تھے۔ ان کی پیدائش نارروال کی تحصیل شکر گڑھ کے ایک گائوں کی تھی اور یوں سیال کوٹ سے شاعر کا ایک قلبی تعلق بھی تھا۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ پورن بھگت کی دعا قبول ہوئی۔ راجا اور لونا کے گھر بیٹا پیدا ہوا جو آنے والے برسوں میں راجا رسالو کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ بھی پنجاب لوک ریت کے چند زندہ رہ جانے والے کرداروں میں سے ایک ہے جن کے قصے آج بھی زبان زدعام ہیں۔
راجا رسالو کی مہم جوئی سے متعلق کہانیاں ابتدا میں 19 ویں صدی میں لکھی گئیں جن پر اسلامی اثر نمایاں تھا۔
پنجاب پر انگریزوں نے حکومت قائم کی تو اس دھرتی کی لوک روایت انگریز محققین کی دلچسپی کا باعث بنی۔ یوں سال 1884 میں کتاب ’پنجاب کے ہیرو راجا رسالو کی مہم جوئی اور پنجاب کی دیگر لوک کہانیاں‘ شائع ہوئی۔ یہ کتاب چارلس ریو سائنرٹن نے لکھی تھیں۔ فلورا اینی سٹیل نے سال 1894 میں کچھ مختلف مگر ایسی ہی کتاب لکھی۔
کہا جاتا ہے کہ راجا رسالو کی موت کے بعد تین صدیوں تک سیال کوٹ کا کوئی تاریخی حوالہ نہیں ملتا۔
راجا رسالو کا ذکر کسی اور وقت کے لیے چھوڑ دیتے ہیں اور کہانی پر واپس آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سیالکوٹ کا قلعہ راجا سالباہن نے دوسری صدی عیسوی میں تعمیر کروایا تھا۔ اس قلعے کی بعدازاں سلطان شہاب الدین غوری نے ازسرنو تعمیر کروائی جب انہوں نے شہر کے آخری غزنوی حکمران خسرو ملک کے قبضے سے یہ قلعہ چھڑوایا۔
اکبر اعظم کے دور میں سیال کوٹ راجا مان سنگھ کو سونپ دیا گیا جو ان کے نو رتنوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اس قلعے کو دوبارہ تعمیر کروایا مگر تقسیم کے بعد ملک کے دیگر تاریخی آثار کی طرح سیال کوٹ کے ماضی کی شان و شوکت کا عکاس یہ قلعہ زمانے کی گرد میں کھو چکا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ راجا سالباہن سمیت ان کے دونوں بیٹوں کے قصے کو تاریخی حقائق سے ثابت کرنا ممکن نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنے عہد سے آگے کی ایک کہانی تھی جس میں ہوس ہے، بدلے کی آگ ہے، اور ایک ایسا عشق ہے جس کا انجام اس کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
اہم یہ نہیں کہ پورن بھگت نام کا کوئی کردار تاریخ میں تھا یا نہیں، بلکہ زیادہ اہم اس کردار کو زندہ رکھنا ہے جو پنجاب کی متنوع ثقافت کا مظہر ہے۔