Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فرینکلی سپیکنگ: کیا غزہ میں نظام صحت کی بحالی ناممکن ہو گئی ہے؟

اسرائیلی بمباری کی وجہ سے غزہ میں بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
مشرقی بحیرہ روم کے لیے عالمی ادارہ صحت کی علاقائی ڈائریکٹر ڈاکٹر حنان بلخی نے کہا ہے کہ غزہ کے نظام صحت کی تباہی اور وہاں کے عوام نے جو شدید صدمے اٹھائے وہ اس قدر پیچیدہ ہیں کہ امدادی کارکنوں کے لیے ان کو سمجھنا ہی کافی مشکل ہے۔
عرب نیوز کے کرنٹ افیئرز کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں سعودی نژاد عالمی ادارہ صحت کی اہلکار نے اس صورتحال کو بیان کیا جس کا جنگ زدہ غزہ میں اسرائیلی بمباری کے دوران فلسطینیوں اور امدادی کارکنوں کو سامنا ہے۔
حنان بلخی نے کہا کہ ان کے لیے المناک کہانیوں کو سننا اور ان کے حوالے سے بات چیت کرنا مشکل ہے۔
’میں مصر کی طرف سے رفح بارڈر کراسنگ پر گئی۔ میں العریش کے ہسپتالوں میں ان مریضوں کی عیادت کے لیے پہنچی۔۔۔ میں نے جو کہانیاں سنی ہیں اور جو صدمے دیکھے ہیں وہ کافی شدید ہیں۔‘
بلخی جنہوں نے اس سال فروری میں ریجنل ڈائریکٹر کے طور پر اپنا عہدہ سنبھالا تھا اور اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون ہیں، وہ ’معذور بچوں اور خواتین‘ اور ’اعضا سے محروم بالغ نوجوانوں‘ سے ملیں اور ان کے بارے میں بتایا۔
انہوں نے کہا کہ ’جو تباہی ہم دیکھ رہے ہیں، اور صدمے کی شدت اور پیچیدگی ایسی چیزیں ہیں جن کو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے اور مسائل کے حل لیے طریقے تلاش کرنے ہوں گے۔‘
حماس کے حملے کے بعد سات اکتوبر سے اسرائیل غزہ میں بمباری کر رہا ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر آبادی بے گھر ہو گئی ہے۔
بمباری کی وجہ سے نہ صرف شہری انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا ہے بلکہ شہریوں کو خوراک، پینے کے پانی اور ادویات کی شدید قلت کا بھی سامنا ہے۔

حنان بلخی نے بلخی نے اس سال فروری میں ریجنل ڈائریکٹر کے طور پر اپنا عہدہ سنبھالا تھا۔ (فوٹو: عرب نیوز)

غزہ کے 36 ہسپتالوں میں سے صرف 33 فیصد اور اس کے بنیادی صحت کے مراکز میں سے صرف 30 فیصد کچھ صلاحیت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا غزہ میں نظام صحت کی بحالی ناممکن ہو گئی ہے؟، تو حنان بلخی کا کہنا تھا کہ ڈبلیو ایچ او مریضوں اور زخمیوں کے لیے اپنی پوری کوشش جاری رکھے گا۔
’غزہ کی صورتحال ہم سب کے لیے خاص طور پر گراؤنڈ پر موجود کام کرنے والے شراکت داروں کے لیے کافی تکلیف دہ رہی ہے۔‘
انہوں نے فرینکلی سپیکنگ میں میزبان کیٹی جینسن کو بتایا ’لیکن ڈبلیو ایچ او اپنے شراکت داروں کے ساتھ اور جو بھی اس وقت گراؤنڈ پر موجود ہے، ان کو ایندھن، طبی سامان اور دیگر امداد کی فراہمی کے لیے کام جاری رکھے ہوئے ہے۔‘
حنان بلخی نے خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے الاونروا کے اہم کردار پر روشنی ڈالی۔
الاونرا رواں برس کے آغاز میں اُس وقت مالی دباؤ میں آئی جب بڑے مغربی عطیہ دہندگان نے اسرائیلی الزامات کے جواب میں اپنی فنڈنگ ​​روک دی۔ اسرائیل نے الزام لگایا تھا کہ الاونروا کے عملے کے 12 ارکان نے سات اکتوبر کے حملے میں حصہ لیا تھا۔  
حنان بلخی کا کہنا تھا ’الاونروا بہت اہم ہے اور ہم اس کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور بنیادی صحت کے نظام میں جو کچھ بچا ہوا ہے اسے برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جو نقصان ہوا ہے اسے بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تشویشناک مریضوں کے انخلا کے لیے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔‘
بلخی نے کہا کہ امدادی کارکنوں کو درپیش چیلنجوں کے باوجود ’ہم وہاں موجود ہوتے ہیں، ہم خدمت فراہم کرتے ہیں، اور غزہ میں مریضوں اور زخمیوں کی خدمت کے لیے اپنی پوری کوشش کرتے رہتے ہیں۔‘
امدادی ٹرکوں کے داخلے پر پابندی اور محدود رسائی کی وجہ سے غزہ کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو تباہ کن بھوک اور قحط کا سامنا ہے۔

غزہ کے بڑے ہسپتال اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

حنان بلخی نے کہا کہ امدادی ایجنسیوں اور عطیہ دینے والے ممالک کی طرف سے فراہم کی جانے والی اشیائے خورونوش کے ٹرک جو غزہ میں داخل ہونے کے لیے انتظار کر رہے ہیں، ان میں چیزیں خراب ہو رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ کی 96 فیصد آبادی مستقل بنیادوں پر شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہی ہے اور اس کی نصف سے زیادہ آبادی کے پاس اپنے گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے جبکہ 20 فیصد افراد بغیر کچھ کھائے  ہیے دن اور راتیں گزارتے ہیں۔‘
’میں رفح کراسنگ پر گئی، اور میں نے مصر کی سرزمین پر العریش کے ہسپتالوں کا دورہ کیا اور میں نے دسیوں یا سینکڑوں ٹرکوں کو قطار میں کھڑے دیکھا ہے جو راہداری کے ذریعے جانے کی کوشش کر رہے ہیں اور خوراک سمیت ضروری امداد فراہم کر رہے ہیں۔‘
’ان کو اب گرمیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، یہ اور بھی مشکل ہونے والا ہے۔ ہمارے پاس پہلے سے ہی معلومات موجود ہیں کہ سرحد پر طویل انتظار اور تاخیر کی وجہ سے ٹرکوں میں موجود خوراک اور ضروری امدادی سامان  میں سے کچھ ناکارہ یا خراب ہو رہا ہے۔ اور اس کا انتظام کرنا ہمارے لیے واقعی میں بہت مشکل ہے۔‘
یہ پوچھے جانے پر کہ جنگ بندی سے غزہ کے صحت کے بحران پر کیا فرق پڑے گا تو حنان بلخی کا کہنا تھا کہ یہ ڈبلیو ایچ او اور دیگر امدادی اداروں کو غزہ کے اندر آزادانہ آمدورفت کی اجازت دے گا جس سے وہ انتہائی ضرورت مندوں تک پہنچ سکیں گے اور اس کے انفراسٹرکچر کو بحال کر سکیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جنگ بندی سے متعلق ہم سلامتی کونسل کی قرارداد کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ امن ہی غزہ کے لوگوں کی مدد کے لیے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔‘
25 مارچ کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے منظور کردہ قرارداد کے ذریعے پہلی مرتبہ غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔

امدادی اداروں کے مطابق غزہ میں بچے غذائی قلت کا شکار ہو رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس سوال پر کہ کیا غزہ میں صحت کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی جنگی جرم جیسا ہے؟
تو ان کا کہنا تھا کہ ’صحت کے مراکز اور صحت کی افرادی قوت کو بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ اور بدقسمتی سے اب تک ایسا نہیں ہوا ہے۔‘
علاقائی حکومتوں اور بین الاقوامی برادری میں تشویش پائی جاتی ہے کہ غزہ میں جنگ ایک وسیع تر تنازعے کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
لبنان خاص طور پر اس لیے خطرے سے دوچار ہے کہ اسرائیل اور ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کے درمیان کئی مہینوں کی سرحد پار فائرنگ سے ایک مکمل جنگ کی جانب بڑھنے کا خطرہ موجود ہے۔
حنان بلخی کا کہنا تھا کہ کشیدگی میں اضافہ لبنان کے لیے ’تباہ کن‘ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم میں سے کوئی بھی مزید جنگ اور مزید تباہی کی خواہش نہیں کرے گا۔ کوئی بھی انسان اسے دیکھنا نہیں چاہے گا۔ لہٰذا ہم امید کرتے ہیں کہ سفارت کاری اپنا کردار ادا کرے گی اور خطہ پُرامن ہو گا اور یہ کشیدگی نہیں بڑھے گی۔‘

شیئر: