Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یوکرین جنگ کے بعد وزیراعظم نریندر مودی پہلی بار روس جائیں گے

وزیراعظم مودی نے روس کا آخری دورہ 2019 میں کیا تھا۔ (فوٹو: اے پی)
انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی یوکرین جنگ کے بعد روس کا پہلا دو روزہ سرکاری دورہ کر رہے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق یہ ایک ایسی جنگ ہے جس نے دیرینہ اتحادیوں کے درمیان تعلقات کو پیچیدہ بنا دیا ہے اور روس کو انڈیا کے حریف چین کے قریب کر دیا ہے۔
ایجنڈے کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ ملاقات کریں گے۔
وزیراعظم مودی نے روس کا آخری دورہ 2019 میں کیا تھا جہاں انہوں نے مشرقی بندرگاہ ولادی ووستوک میں صدر پوتن سے ملاقات کی تھی۔
ستمبر 2022 میں دونوں رہنماؤں نے ازبکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں بھی ملاقات کی تھی۔
سرد جنگ کے بعد روس کے انڈیا کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں اور ماسکو کے لیے ایک اہم تجارتی شراکت دار کے طور پر نئی دہلی کی اہمیت اس وقت سے بڑھ گئی جب کریملن نے فروری 2022 میں یوکرین میں فوج بھیجی تھی۔ امریکہ اور اتحادیوں کی جانب سے پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد چین اور انڈیا روسی تیل کے اہم خریدار بن گئے ہیں۔
مودی کی قیادت میں انڈیا نے پُرامن حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے یوکرین میں روس کی جنگ کی مذمت کرنے سے گریز کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے قازقستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں مودی نے شرکت نہیں کی تھی۔
برطانیہ میں قائم چیتھم ہاؤس کے سینیئر جنوبی ایشیا کے ریسرچ فیلو چیتیگ باجپائی کے مطابق انڈیا تیزی کے ساتھ ان فورمز سے دور ہوتا جا رہا ہے جن میں روس اور چین نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔

چین اور انڈیا روسی تیل کے اہم خریدار بن گئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

باجپائی نے کہا کہ ’یہ بات گزشتہ سال شنگھائی تعاون تنظیم کی انڈیا کی نسبتاً کم اہم صدارت سے ظاہر ہوتی ہے، اور اب مودی کے رواں برس کے سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے سے بھی۔‘
اے پی سے بات کرتے ہوئے روس میں انڈیا کے سابق سفیر ڈی بالا وینکاتش ورما نے بتایا کہ خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے جارحیت کے تناظر میں چین کے ساتھ روس کے تعلقات انڈیا کے لیے تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
لیکن مودی روس کے ساتھ قریبی تعلقات کو بھی جاری رکھنے کی کوشش کریں گے جو ایک اہم تجارتی شراکت دار اور انڈیا کے لیے ایک بڑا دفاعی سپلائر ہے۔
چیتھم ہاؤس کے سینیئر جنوبی ایشیا کے ریسرچ فیلو چیتیگ باجپائی نے مزید کہا کہ دفاعی تعاون واضح طور پر ایک ترجیحی شعبہ ہو گا، انڈیا کا 60 فیصد فوجی ساز و سامان اور نظام‘ اب بھی روسی ساختہ ہیں۔
’یوکرین پر روسی حملے کے بعد ہم نے سپیئر پارٹس کی فراہمی میں کچھ تاخیر دیکھی ہے۔ میرا خیال ہے کہ دونوں ممالک ملٹری لاجسٹک معاہدے پر دستخط کرنے والے ہیں، جو مزید دفاعی تبادلے کی راہ ہموار کرے گا۔‘

شیئر: