صدر پوتن کا دورۂ چین، ’لامحدود‘ پارٹنرشپ کو جاری رکھنے کا عزم
صدر پوتن کا دورۂ چین، ’لامحدود‘ پارٹنرشپ کو جاری رکھنے کا عزم
جمعہ 17 مئی 2024 6:24
مشترکہ بیان کے مطابق ماسکو اور بیجنگ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد کے آرڈر کا دفاع کرنا چاہیے۔ فوٹو: روئٹرز
روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور چینی صدر شی جنپنگ نے دونوں ملکوں کے درمیان ’لامحدود‘ پارٹنرشپ کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مغرب کے ساتھ بڑھتے تناؤ کے درمیان جمعرات کو دونوں ملکوں نے ایشیا اور پیسیفک کے خطے میں امریکی فوجی اتحادوں پر تنقید کی۔
بیجنگ میں دونوں ملکوں کے سربراہی اجلاس میں صدر پوتن نے یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے چین کی تجاویز پر شی جن پنگ کا شکریہ ادا کیا۔
ان تجاویز کو یوکرین اور اس کے مغربی حامیوں نے بڑی حد تک روسی پالیسی کی پیروی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
صدر پوتن کا اپنے ایک مضبوط اتحادی ملک اور تجارتی شراکت داروں میں سے ایک کا دو روزہ سرکاری دورہ ایسے وقت میں ہوا جب روسی افواج شمال مشرقی یوکرین کے خارکیف علاقے پر قبضے کے لیے آگے بڑھ رہی ہیں۔
روس کے یوکرین پر حملے کو دو برس سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔
چین کا دعویٰ ہے کہ وہ تنازع میں غیر جانب دار ہے، لیکن اس نے کریملن کے اس دعوے کی حمایت کی ہے کہ روس کو یوکرین پر حملے کے لیے مغربوں ملکوں کے اقدامات نے اکسایا تھا۔
روس اس وقت عالمی پابندیوں کا شکار ہے اور چین ہتھیاروں کی تیاری کے لیے ماسکو کو درکار کلیدی اجزا کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے۔
چین نے روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت نہیں کی تھی تاہم سنہ 2023 میں ایک امن منصوبے کی تجویز پیش کی، جس میں جنگ بندی اور ماسکو اور کیئف کے درمیان براہ راست بات چیت کا مطالبہ کیا گیا۔
اس منصوبے کو یوکرین اور مغرب دونوں نے اس وجہ سے مسترد کر دیا تھا کہ اس میں روس سے یوکرین کے مقبوضہ علاقوں کو چھوڑنے کا مطالبہ شامل نہیں تھا۔
چین نے ایک مشترکہ بیان میں یوکرین میں نازی ازم کے بارے میں روس کے بیانیے کو بھی آگے بڑھایا اور اس کو تاریخی تناظر فراہم کیا۔
مشترکہ بیان کے مطابق ماسکو اور بیجنگ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد کے آرڈر کا دفاع کرنا چاہیے اور ’نازی ازم اور عسکریت پسندی کو بحال کرنے کی کوششوں یا اس کے سراہے جانے کی شدید مذمت کرنا چاہیے۔‘
صدر پوتن نے یوکرین پر حملے کو وہاں سے صدر زیلنسکی کی ’نازی حکومت کے خاتمے‘ کی کوشش قرار دیا تھا۔
مشترکہ بیان میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اُس کو ’سرد جنگ کے دور کی ذہنیت‘ قرار دیا گیا۔