Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ میں مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج، پولیس سے تصادم کے بعد 27 مظاہرین گرفتار

مظاہرین نے رکاوٹیں ہٹانے اور آگے بڑھنے کی کوشش کی تو پولیس کے ساتھ جھڑپیں شروع ہوگئیں (فوٹو: سکرین گریب)
کوئٹہ میں کالعدم مسلح بلوچ تنظیم کے سربراہ کے بھائی کی مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج جاری ہے اور مظاہرین نے ریڈ زون کے سامنے دھرنا دے رکھا ہے۔
جمعرات کو مظاہرین کی احتجاجی ریلی کو روکنے کے لیے پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔ پولیس نے توڑ پھوڑ کا الزام عائد کرتے ہوئے 27 مظاہرین کو گرفتار کرلیا ہے۔
مظاہرین پر پولیس کی جانب سے مبینہ تشدد کے خلاف بلوچستان بار کونسل اور وکلا تنظیموں کی کی اپیل پر وکلا نے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا جبکہ کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی شاہراہ کو بھی قلات کے علاقے منگچر میں بند رکھا گیا ہے۔
کوئٹہ میں گذشتہ تقریباً دو ہفتوں سے ظہیر بلوچ کی مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔ مظاہرین کا الزام ہے کہ ظہیر بلوچ سرکاری ملازم ہیں جنہیں 27 جون کو سرکاری ڈیوٹی سے گھر جاتے ہوئے گرفتار کرکے لاپتا کیا گیا ہے۔
تاہم وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیا اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ تمام سکیورٹی اداروں سے معلوم کیا ظہیر بلوچ سرکار کے پاس نہیں ہیں۔ وہ کالعدم بلوچ مسلح تنظیم بی ایل اے کے کمانڈر بشیر زیب کے بھائی ہیں انہی کے پاس ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ بشیر زیب سینکڑوں نوجوانوں کو ورغلاکر پہاڑوں پر لے جا چکے ہیں۔ دہشت گردی کی سنگین وارداتوں میں ملوث ہیں اور دہشت گرد کیمپوں میں آتے جاتے ہیں کیا وہ بھائی کو اپنے پاس نہیں بلا سکتے۔
ظہیر بلوچ کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ ظہیر گذشتہ 15 برسوں سے سرکاری ملازمت کر رہے تھے۔ وہ باقاعدگی سے ڈیوٹی پر جاتے تھے سرکاری حاضری رجسٹر پر ان کی حاضری کو دیکھا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گمشدگی کے دن بھی وہ ڈیوٹی کرکے واپس گھر آرہے تھے۔ انہوں نے ظہیر بلوچ کو عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو کے مطابق ’پولیس نے وزیراعلٰی کے احکامات پر پانچ گرفتار خواتین کو رہا کردیا ہے‘ (فوٹو: سکرین گریب)

جمعرات کو ظہیر بلوچ کے اہل خانہ نے لاپتا افراد کے لواحقین کے ہمراہ ریلی نکالی اور ریڈ زون کی طرف جانے کی کوشش کی تو پولیس نے سریاب روڈ پر بلوچستان یونیورسٹی کے قریب انہیں روک لیا۔
مظاہرین نے رکاوٹیں ہٹانے اور آگے بڑھنے کی کوشش کی تو پولیس کے ساتھ جھڑپیں شروع ہوگئیں۔
ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ اعتزاز احمد گورایہ کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا، ان پر لاٹھیوں سے حملے کیےجس سے پانچ اہلکار زخمی ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس کی بارہ گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا جس کی سی سی ٹی وی فوٹیجز بطور ثبوت موجود ہیں۔ مظاہرین کی جانب سے پولیس پر فائرنگ بھی کی گئی۔‘
وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ پولیس نے مظاہرین کے ساتھ رحم دلی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے باوجود انہوں نے پولیس پر حملہ کیا اور انہیں مارا پیٹا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعلٰی کے احکامات پر پانچ گرفتار خواتین کو رہا کردیا گیا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر سرکاری اور ریاستی اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔
ضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ ریاست نے بہت صبر کرلیا، اب دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کریں گے۔ ریاست اپنی رٹ کو برقرار رکھے گی۔

شیئر: