ترکیہ میں عرب سیاحوں اور شامی پناہ گزینوں پر حالیہ حملوں پر تشویش
ترکیہ میں عرب سیاحوں اور شامی پناہ گزینوں پر حالیہ حملوں پر تشویش
جمعرات 18 جولائی 2024 17:11
سیاحتی حوالے سے ترکیہ اہم ملک ہے جہاں مشرق وسطیٰ سےلاکھوں سیاح آتے ہیں۔ فوٹو انسٹاگرام
ترکیہ میں حالیہ دنوں عرب باشندوں پر پُرتشدد حملوں کی لہر میں اضافے نے یہاں غیر ملکی سیاحوں کی حفاظت کے بارے میں تشویش پیدا کر دی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ترکیہ سیاحت کے اعتبار سے خطے کا اہم ملک ہے جہاں مشرق وسطیٰ کے ممالک سے لاکھوں سیاح آتے ہیں اور جہاں لاکھوں شامی مہاجرین پناہ گزیں ہیں۔
العربیہ نیوز کی ایک خبر کے مطابق رواں ماہ کے شروع میں استنبول میں سعودی سیاحوں کے ایک گروپ کو چاقو سے دھمکی دینے کے الزام میں ایک ترک شخص کو گرفتار کیا گیا۔
چاقو سے حملے کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے گردش کر رہی ہے جس میں یہ ترک شخص ’ گرے وولفز‘ تنظیم کا اشارہ کر رہا ہے، یہ تنظیم الٹرا نیشنلسٹ اینڈ پین-ترک گروپ کے طور پر 1960 کی دہائی کے آخر میں نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے یوتھ ونگ کے طور پر قائم ہوئی تھی۔
’گرے وولفز‘ تنظیم طویل عرصے سے پرتشدد کارروائیوں سے منسلک رہی ہے، اس تنظیم نے بائیں بازو کی تنظیموں، کردوں اور دیگر اقلیتی گروپوں پر بھی حملے کئے ہیں جب کہ متنازعہ شہرت کے باوجود ترک معاشرے میں بااثر ہے۔
ترک سیاحت کے ادارے کے مطابق سعودی باشندوں کے لیے ترکیہ سیاحت کا مقبول مقام ہے اور گزشتہ سال جنوری سے اگست تک 650000 افراد نے ترکیہ کا دورہ کیا ہے۔
ترکیہ میں عرب سیاحوں پر حملوں کی ویڈیو آن لائن وائرل ہونے کا یہ پہلا موقع نہیں تھا اس سے قبل بھی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، ترکیہ میں عربوں سے مخاصمت سعودی سیاحوں کی تعداد کم کر سکتی ہے۔
اسی طرح گزشتہ سال خلیجی ریاستوں اور مصر میں بھی سیاحوں کے ساتھ ہونے والے معمولی واقعات کو چند لوگوں نے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا تھا۔
چاقو برداری کا حالیہ واقعہ ترکیہ میں شامیوں کے خلاف تشدد کی تازہ لہر کے پس منظر میں پیش آیا ہے۔
وسطی اناطولیہ کے علاقے قیصری میں حالیہ واقعہ میں ایک نابالغ کے خلاف جنسی زیادتی کے الزام میں 26 سالہ شامی شخص کی گرفتاری کے بعد ہنگامہ آرائی میں اضافہ ہوا۔
سوشل میڈیا پر قیصری کے علاقے میں شامی شخص کے بارے میں 30 جون کو خبر پھیلی کہ مبینہ طور پر ملیکگازی ضلع میں عوامی بیت الخلاء میں 7 سالہ بچی کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہوئے پکڑا گیا۔
اس واقعے کے بعد فسادیوں نے علاقے میں شامی ملکیت کے درجنوں کاروباری اداروں، گھروں اور گاڑیوں پر حملے کر کے توڑ پھوڑ کی۔
بعدازاں پُرتشدد کارروائیاں ترکیہ کے دیگر علاقوں بشمول غازیان ٹیپ، بُرسا اور ہاتائے تک پھیل گئیں، قریبی علاقے میں ایک شامی شخص کی دکان کو آگ لگا دی گئی۔
برطانیہ میں مقیم شامی کارکن لانا ’اصل نام ان کی درخواست پر تبدیل کر دیا گیا’ نے بتایا کہ قیصری واقعے کے بعد غازیانتپ میں ان کا پناہ گزیں خاندان کم از کم دو ہفتوں تک انتہائی مشکل حالات سے گزرا ہے۔
اقوام متحدہ میں رفیوجیز ہائی کمشنر کے اعداد و شمار کے مطابق ترکیہ میں 36 لاکھ شامی پناہ گزین موجود ہیں۔
قیصری واقعے کے چند دن بعد ترکیہ میں تقریباً 30 لاکھ شامی مہاجرین کا ذاتی ڈیٹا آن لائن لیک ہو گیا جس سے غیر انسانی تشدد پھوٹنے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔
ترک وزارت داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ عارضی تحفظ کے تحت شامیوں کی ذاتی تفصیلات سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے شیئر کی گئی ہیں جسے ایک 14 سالہ نوجوان چلاتا ہے جس کے خلاف ضروری کارروائی کی گئی ہے۔
ترک وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے فسادیوں کے اقدامات کو ’غیر قانونی‘ اور ملکی اقدار کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور بتایا ہے کہ حملے کی تحقیقات جاری ہیں۔
علی یرلیکایا نے سوشل میڈیا ایکس اکاؤنٹ پر پوسٹ میں کہا ہے ’ امن عامہ، سلامتی اور انسانی حقوق کا خیال کیے بغیر ماحول کو نقصان پہنچانا ہر صورت میں ناقابل قبول ہے، مقامی حکام نے اس واقعے میں ملوث67 مظاہرین کو حراست میں لیا ہے۔
وزیر داخلہ نے ایک الگ پوسٹ میں کہا ہے ’ تشدد بھڑکانے میں مدد کرنے والے متعدد افراد کے ایکس اکاؤنٹس کی چھان بین کی جا رہی ہے اور 10 افراد کو تحقیقی اداروں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔‘
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے بھی حالیہ پُرتشدد کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ’معاشرے میں غیر انسانی جذبات اور شامی پناہ گزینوں سے نفرت کو ہوا دے کر کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔‘