حکومت کا بلوچ یکجہتی کمیٹی سے مذاکرات کامیاب ہونے کا دعویٰ، ماہ رنگ بلوچ کی تردید
حکومت کا بلوچ یکجہتی کمیٹی سے مذاکرات کامیاب ہونے کا دعویٰ، ماہ رنگ بلوچ کی تردید
بدھ 31 جولائی 2024 22:15
ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہے کہ گوادر کے میرین ڈرائیو پر ہمارا دھرنا جاری ہے (فائل فوٹو: بی وائی سی)
بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر کے حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی ) کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں جس کے نتیجے میں بی وائی سی نے دھرنا ختم کرنے جبکہ حکومت نے گرفتار افراد کو رہا، سڑکیں کھولنے اور نیٹ ورک بحال کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
گوادر کے اسسٹنٹ کمشنر جواد احمد زہری کے مطابق مظاہرین کے ساتھ ڈپٹی کمشنر گوادر حمود الرحمان کی سربراہی میں حکومتی وفد نے مذاکرات کیے۔
حق دو تحریک کے چیئرمین حسین واڈیلہ، بلوچستان نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں طے پایا کہ احتجاج اور دھرنوں کے دوران بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گرفتار ہونے والے تمام کارکنوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ موبائل فون نیٹ ورک بحال اور تمام راستے کھول دیے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے گوادر میں جاری دھرنا ختم کیا جائے گا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تردید
تاہم بلوچ یکجہتی کمیٹی کے وٹس اپ چینل پر جاری کیے گئے ایک بیان میں بی وائی سی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے مذاکرات کی کامیابی کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ گوادر کی میرین ڈرائیور پر ہمارا دھرنا جاری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گوادر میں نیٹ ورک اور انٹرنیٹ کو بند کرکے پرامن شرکاء کے سروں پر بندوق رکھ کر میڈیا اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے مذاکرات کا ڈھونگ رچایا جارہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم نے یقین دلایا تھا کہ بلوچ راجی مچی ایک روزہ پرامن قومی اجتماع ہے لیکن شروع دن سے ہی ہمیں راستہ اور اجتماع کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پرامن عوامی اجتماع پر طاقت کے استعمال کے خلاف ہم نے اس اجتماع کو دھرنے میں تبدیل کیا ہے جس کے دو سادہ مطالبات ہیں کہ بلوچ راجی مچی کے گرفتار شرکاء اور جبری گمشدگیوں کے شکار افراد کورہا اور بلوچستان کے تمام راستوں کو کھولا جائے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ بندوق سر پر رکھ کر کسی بھی صورت مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔ اگر مذاکرات کرنے ہیں تو سب سے پہلے طاقت اور تشدد کےا ستعمال کو فوری روکا جائے۔
بلوچ قومی اجتماع دھرنے میں کیسے تبدیل ہوا؟
گوادر میں 28 جولائی کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام بلوچ راجی مچی یعنی بلوچ قومی اجتماع کا اعلان کیا گیا تھا تاہم حکومت کی جانب سے اس اجتماع کو روکنے، گرفتاریوں اور شہر کے داخلی و خارجی تمام راستوں کو بند کرنے کے خلاف بی وائی سی نے ایک دن کے اس احتجاج کو دھرنے میں تبدیل کردیا۔
یہ دھرنا گوادر میں گزشتہ چار دنوں سے جاری ہے جبکہ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے کئی شہروں میں بھی مسلسل احتجاج جاری ہے۔ قلات، چاغی، مستونگ، کیچ سمیت کئی شہروں میں گزشتہ چار دنوں سے ہڑتال اور تمام کاروباری و تجارتی مراکز بند ہیں۔
اس احتجاج کے دوران سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ فورسز کی جانب سے طاقت کے استمعال کے نتیجے میں ان کے کم از کم دو کارکن ہلاک اور بیس سے زائد زخمی ہوئے ہیں ۔
حکومت کا بھی دعویٰ ہے کہ مظاہرین کی جانب سے تشدد کے نتیجے میں ایک سکیورٹی اہلکار ہلاک اور بیس سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
گوادر سے رکن بلوچستان اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ دنوں سے گوادر جانےوالے تمام راستے حکومت کی جانب سے بند ہونے کی وجہ سے شہر کی لاکھوں کی آبادی محصور ہوکر رہ گئی ہے۔ کاروباری و تجارتی مراکز بند، موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ راستے اور بازار بند ہونے کی وجہ سے شہر میں خوراک کی قلت پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
وزیر داخلہ بلوچستان تین دن سے گوادر میں
وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو بھی گزشتہ تین دنوں سے گوادر میں موجود ہیں۔
سرکاری بیان کے مطابق ضیاء اللہ لانگو نے گوادر میں سیاسی رہنماؤں اور تاجر برادری سے ملاقاتیں کیں۔
ضیاء اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ مظاہرین سے مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے۔ مظاہرین نے جو مطالبات سامنے رکھے ہیں، ان پر آئین و قانون کے تحت عمل درآمد کیا جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ پہلے روز ہی کہہ چکے ہیں کہ ہر مسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ گوادر کے لوگ ہمارے لوگ ہیں حکومت کو ان کی مشکلات اور مسائل کا بخوبی ادراک ہے اور سنجیدگی سے اقدامات کر رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ افرا تفری، انتشار اور بدامنی کو ہوا دینے سے صرف تباہی و بربادی ہی ملے گی۔