مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں، بلنکن کا اسرائیلی وزیر دفاع سے رابطہ
مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں، بلنکن کا اسرائیلی وزیر دفاع سے رابطہ
ہفتہ 10 اگست 2024 5:52
انٹونی بلنکن نے ایک مرتبہ پھر جنگ بندی کی ضرورت پر زور دیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ سے ٹیلی فونک گفتگو میں کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں اضافہ ’کسی بھی فریق کے مفاد میں نہیں۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ جمعے کو ٹیلی فونک گفتگو کے دوران وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے غزہ میں جنگ بندی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
ایران میں فلسطینی اسلامی تنظیم حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ اور بیروت میں حزب اللہ کے فوجی کمانڈر فواد شُکر کی ہلاکتوں کے بعد مشرق وسطیٰ میں وسیع جنگ پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
غزہ میں اسرائیل کی جنگ میں پہلے ہی ہزاروں افراد کو ہلاک ہو چکے ہیں اور حماس کے سات اکتوبر کے اسرائیل پر حملے کے بعد ایک انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے۔
سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’سیکریٹری خارجہ نے اسرائیل کی سلامتی کے لیے امریکہ کے غیرمتزلزل عزم کی توثیق کی اور اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ کسی بھی طرح کی کشیدگی کسی بھی فریق کے مفاد میں نہیں ہے۔‘
محکمہ خارجہ نے مزید کہا کہ بلنکن نے ’غزہ میں جنگ بندی تک پہنچنے کی فوری ضرورت‘ پر زور دیا جس کے تحت وہاں قید یرغمالیوں کو رہا کیا جا سکتا ہے اور ’وسیع تر علاقائی استحکام کے لیے حالات سازگار بنائے جا سکتے ہیں۔‘
اس سے ایک دن قبل یوو گیلنٹ نے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن سے خطے کی صورتحال کے بارے میں بات چیت کی۔
عشروں پرانے اسرائیل فلسطینی تنازع میں تازہ ترین خونریزی سات اکتوبر کو شروع ہوئی جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا جس میں 12 سو افراد ہلاک اور 250 کے قریب یرغمال بنائے گئے۔
غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سے حماس کے زیر انتظام علاقے پر اسرائیل کے فوجی حملے میں تقریباً 40 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 23 لاکھ کی آبادی کو بے گھر کر دیا گیا ہے۔
اسرائیل پر بھوک کا بحران پیدا کرنے اور نسل کشی کے الزامات ہیں جن کی اس نے تردید کی ہے۔
صدر جو بائیڈن نے 31 مئی کو ایک خطاب میں تین مرحلوں پر مشتمل جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی جس کے بعد سے واشنگٹن اور علاقائی ثالثوں نے غزہ میں یرغمالیوں کے لیے جنگ بندی کے معاہدے کو ترتیب دینے کی کوشش کی ہے لیکن اس میں مسلسل رکاوٹوں کا سامنا ہے۔