چترال کی کیلاش ویلی میں اوچھال کا تہوار، سیاحوں کے لیے ’ایس او پیز‘ جاری
پیر 19 اگست 2024 12:17
فیاض احمد، اردو نیوز۔ پشاور
کیلاش میں 2 روز کے لیے بغیر تصدیق کے سیاحوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی
خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کی وادی کیلاش میں مقامی مذہبی تہوار اوچھال 20 اگست سے شروع ہو رہا ہے جو 22 اگست تک جاری رہے گا۔
ضلعی انتظامیہ لوئر چترال کی جانب سے اس تہوار کے دوران علاقے میں آنے والے سیاحوں کے لیے خصوصی ایس او پیز جاری کیے گئے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر لوئر چترال نے وادی کیلاش میں 2 روز کے لیے مشتبہ افراد اور بغیر تصدیق کے سیاحوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
ڈپٹی کمشنر چترال کے دفتر سے جاری اعلامیے کے مطابق ’تہوار کے دنوں میں بغیر شناخت کے موٹر سائیکل سواروں اور کھلی چھت والی سوزوکی گاڑیوں کے داخلے اور سیاحتی مقامات پر کھانا پکانے اور گندگی پھیلانے پر پابندی ہوگی۔‘
اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ضلعی انتظامیہ نے کیلاش خواتین کی بغیر مرضی کی تصویر بنانے اور وی لاگ بنانے پر بھی پابندی عائد کی ہے جب کہ وادی کیلاش میں 20 اگست سے 22 اگست تک اسلحے کی نمائش پر بھی پابندی ہوگی۔‘
ڈپٹی کمشنر لوئر چترال محسن اقبال نے سیاحوں سے تعاون کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اوچھال کیلاش قبیلے کا مذہبی تہوار ہے جس کے دوران تمام لوگوں کو احترام کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔‘
ضلعی انتظامیہ کے مطابق پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے سیاحوں کے خلاف دفعہ 188 کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
مقامی کیلاشی خاتون سجینا بی بی نے ضلعی انتظامیہ کے اس اقدام کو سراہا اور کہا کہ ’اوچھال یا چلم جوشٹ جیسے بڑے تہواروں کے دوران سیاحوں کی جانب سے تصاویر بنانے کے لیے اصرار کیا جاتا ہے اور کچھ تو بغیر پوچھے تصویر یا ویڈیو بنا لیتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سیاحوں کو ہماری روایات اور کلچر کو ملحوظ خاطر رکھ کر یہاں آنا چاہیے کیوں کہ سیاحوں کے اس رویے سے سیاحت کے ساتھ ثقافت کو بھی نقصان ہوگا۔‘
ایک اور کیلاشی خاتون سید گل نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’وادی میں وی لاگرز کے آنے پر پابندی نہیں۔ وہ آئیں اور دنیا کو یہاں کے قدرتی مناظر دکھائیں، سیر و تفریح کریں مگر خواتین کا انٹرویو لینے کے لیے زبردستی نہ کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کچھ یوٹیوبرز ویوز کے لیے یہاں کی لڑکیوں سے انٹرویو لیکر اسے منفی انداز میں پیش کرتے ہیں جس سے پورے چترال کی بدنامی ہوتی ہے۔‘
سید گل کے مطابق ’سیاحت کے فروغ کے لیے مقامی رسم و رواج کا احترام بھی ضروری ہے اسی لیے ضلعی انتظامیہ کا اقدام قابل تعریف ہے۔‘