Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں تحریک انصاف کو قیادت کے بحران کا سامنا کیوں؟

پی ٹی آئی پنجاب کے صدر حماد اظہر نے چند دن قبل عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا (فائل فوٹو: پی ٹی آئی، ایکس)
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) تقریباً ایک برس کے بعد دوبارہ سیاسی محاذ پر متحرک ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔
گزشتہ برس مئی کے مہینے میں پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی ڈرامائی گرفتاری پر ہونے والے مظاہروں نے اس سیاسی جماعت کی راہیں مسدود کر دی تھیں۔ تاہم اب یہ جماعت پنجاب میں سرگرم ہونے کے لیے کوشاں ہے۔
خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کے بعد وہاں چند ایک بڑے عوامی اجتماعات منعقد کیے گئے تاہم اپنی ہی حکومت ہونے کی وجہ سے شاید ان کی وہ پذیرائی نہ ہو سکی، اس لیے اب پوری توجہ پنجاب یا اسلام آباد کی حدود میں بڑا اکٹھ کرنے کی جانب مبذول کی جا رہی ہے۔
اس حوالے سے تازہ ترین ڈویلپمنٹ یہ ہے کہ جمعرات 22 اگست کی جلسے کی کال علی الصبح ہی واپس لے لی گئی اور اب یہ جلسہ 8 ستمبر کو ہو گا۔ اس کا اعلان خود پی ٹی آئی قیادت نے کیا ہے۔
ایک طرف جب پی ٹی آئی پنجاب میں اپنا وجود دوبارہ منوانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے عین اسی وقت اس صوبے میں تحریک انصاف کو قیادت کے بحران کا بھی سامنا ہے۔
گزشتہ ہفتے پنجاب کے صدر حماد اظہر سمیت لاہور کی قیادت نے اپنے عہدوں سے استعفے دے دیے تھے۔ ان استعفوں کی بڑی وجہ پارٹی کے اندر دھڑے بندیوں کا معاملہ تھا۔ ایک دھڑا میاں اسلم، اعظم سواتی وغیرہ پر مشتمل ہے جبکہ دوسرا دھڑا حماد اظہر، حافظ فرحت اور دیگر کا ہے۔
اس دھڑے بندی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پی ٹی آئی لاہور کے نئے صدر شیخ امتیاز جمعرات کی صبح گرفتار کر لیے گئے۔ اور پھر جلسے کی تاریخ کی تبدیلی کے اعلان سے پہلے ایک بھی کارکن یا رہنما لاہور کی حدود سے اسلام آباد جلسے کے لیے روانہ نہیں ہوا۔
حماد اظہر اور ان کے ساتھی جو 14 اگست کو اچانک منظرعام پر آئے، وہ اب پوری طرح لاتعلق دکھائی دے رہے ہیں۔

تحریک انصاف کے نو مئی کے مقدمات میں مطلوب رہنما ایک برس بعد بھی منظرعام پر آنے سے قاصر ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

قابل غور پہلو یہ ہے کہ دونوں دھڑوں کے کرتا دھرتا شمار ہونے والے رہنما 9 مئی کے مقدمات کے باعث خود منظرعام پر آنے سے قاصر ہیں۔
اس حوالے سے جب پنجاب میں تحریک انصاف کے اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’پارٹی میں اختلافات اس لیے بھی سامنے آئے ہیں کیونکہ یہ ایک سیاسی پارٹی ہے اور اس میں جمہوریت ہے۔ حماد اظہر صاحب کا استعفی پارٹی نے منظور ہی نہیں کیا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ لاہور سے آج لوگ نہیں نکلے تو وہ تو جلسہ ہی منسوخ ہو گیا اب 8 ستمبر جب آئے گی تو ہم اپنی نئی حکمت عملی بھی سامنے لائیں گے۔‘
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کو اپنے اندرونی اختلافات دور کرنے کی ضرورت ہے۔
سینیئر تجزیہ کار وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ ’تحریک انصاف نے اپنا اپوزیشن لیڈر بھی میانوالی سے رکھا ہوا ہے۔ ان کی لاہور میں اس طرح سے جڑیں اور سیاست نہیں ہیں۔ میں احمد خان بھچر کی بات کر رہا ہوں۔ اور ایسی خبریں بھی آ رہی ہیں کہ لاہور کی قیادت کی تبدیلی میں ان کا بھی ہاتھ ہے۔ جس کی وجہ سے دوسرا گروپ بالکل ہی پیچھے چلا گیا ہے۔ پہلے جتنی کوئی سرگرمی دکھا رہا تھا، وہ حماد اظہر کا گروپ ہی تھا۔ میرے خیال میں عمران خان کے جیل میں ہونے کا سب سے بڑا نقصان ان کی پارٹی کے معاملات پر پڑا ہے۔‘

چند دن قبل پی ٹی آئی پنجاب میں دھڑے بندی سامنے آئی(فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس لیے تو سیاسی طرز کا اختیار کرنا ہمارے جیسے معاشروں میں اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ لیکن ابھی تو جو دکھائی دے رہا ہے جب تک عمران خان خود باہر نہیں آتے، تحریک انصاف کی سیاسی قوت میں کمزوری کی نشاندہی تو ہوتی رہے گی۔‘
اردو نیوز نے احمد خان بھچر سے پوچھا کہ کیا پنجاب میں پی ٹی آئی کے سیاسی بحران میں مبصرین ان کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے عمران خان نے اپوزیشن لیڈر مقرر کیا ہے۔ اور جن سختیوں سے ہم گزر رہے ہیں اس میں ابہام کا پیدا ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ میں نے تو پہلے کہا ہے کہ یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔‘

شیئر: