Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشرق وسطیٰ میں فوری طور پر بڑی جنگ کا خطرہ کسی حد تک کم ہو گیا: امریکی جنرل

امریکی جنرل نے خبردار کیا کہ عراق، شام اور اردن میں ایران کے شدت پسند سے بھی خطرہ ہے جو امریکی فوجیوں پر حملے کر چکے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی جنرل  نے کہا ہے کہ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جھڑپ کے بعد مشرق وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر جنگ کے امکانات کسی حد تک کم ہوگئے ہیں، لیکن ایران کا خطرہ موجود ہے جو اسرائیل پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق چیئرمین آف جوائنٹ چیفس آف سٹاف اور ایئر فورس کے جنرل جی کیو براؤن نے مشرق وسطیٰ کا تین روزہ دورہ کیا۔ اسی دوران لبنان اور اسرائیل کے درمیان جھڑپ ہوئی۔
یہ دس ماہ میں ہونے والے سب سے بڑی جھڑپ تھی، لیکن اس سے اسرائیل میں کم نقصان ہوا اور مزید نہیں بڑھی۔
جنرل براؤن نے کہا کہ حزب اللہ کا حملہ اسرائیل پر حالیہ ہفتوں میں ہونے والا دوسرا حملہ تھا۔ ایران بھی حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعد حملے کی دھمکی دے رہا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا فوری طور پر علاقائی جنگ کا خطرہ ٹل گیا ہے تو انہوں نے کہا کہ ’ہاں کسی حد تک۔ معلوم تھا کہ دو چیزیں ہو سکتی ہیں۔ ایک ہو چکی ہے اور دیکھنا ہے کہ دوسری کیسے ہو گی۔ اسرائیل کس طرح جواب دے گا اس کا اندازہ اس سے ہوگا کہ ایران کس طرح جواب دے گا۔ اس سے معلوم ہوگا کہ تنازع وسیع پیمانے پر پھیلے گا یا نہیں۔‘
انہوں خبردار کیا کہ عراق، شام اور اردن میں ایران کے شدت پسند سے بھی خطرہ ہے جو امریکی فوجیوں پر حملے کر چکے ہیں۔
ایران نے حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل پر سخت ردعمل کا عزم ظاہر کیا ہے اور اس نے ان ہلاکت کا الزام اسرائیل پر لگایا تھا۔ اسرائیل نے نہ تو اس میں ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے اور نہ ہی تردید کی ہے۔
جنرل براؤن نے کہا کہ 13 اپریل کے مقابلے میں امریکی فوج اسرائیل کے دفاع کے لیے بہتر پوزیشن میں تھی، یہ میں تھی جب ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس میں سینکڑوں ڈرون، کروز میزائل اور بیلسٹک میزائل مار گرائے تھے۔
پھر بھی اسرائیل، امریکہ اور دیگر اتحادی اہداف تک پہنچنے سے پہلے ہی تقریباً تمام ہتھیاروں کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

شیئر: