Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اوورسیز پاکستانیوں کی مدد سے 10 سال میں ترسیلات زر 60 ارب ڈالر تک لے جانے کا منصوبہ

سٹیٹ بینک ہر ماہ بینکوں کی کارکردگی کا جائزہ لے گا اور ادائیگیاں اسی کے مطابق کی جائیں گی (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی وزارت خزانہ، وزارت اوورسیز پاکستانیز اور سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک جامع منصوبہ تیار کیا ہے جس کا مقصد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی مدد سے ترسیلات زر کو 2034 تک 60 ارب ڈالر تک پہنچانا ہے۔ اس منصوبے میں اوورسیز پاکستانیوں کے لیے مختلف مراعات اور اقدامات شامل ہیں۔
ترسیلات زر پاکستان کی معیشت کے لیے نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ غیر ملکی زرِ مبادلہ کا ایک مستحکم ذریعہ ہیں اور لاکھوں خاندانوں کی مالی معاونت کا باعث بنتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں پاکستان کی معیشت کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے جیسے کہ روپے کی قدر میں کمی، بیرونی قرضوں کا بوجھ اور تجارتی عدم توازن، جس کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے ترسیلات زر پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے۔
کورونا وبا نے ترسیلات زر کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا۔ عالمی معاشی بحران کے باوجود سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے پاکستان بھیجی جانے والی ترسیلات زر مستحکم رہیں۔ یہ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں اور ان کے خاندانوں کے درمیان مضبوط تعلقات موجود ہیں اور ان ترسیلات زر نے ملکی معیشت کو بھی سہارا دیا ہے۔ اب جب کہ وبا کے بعد عالمی معیشت آہستہ آہستہ بحال ہو رہی ہے، اس رجحان سے فائدہ اٹھانے کا موقع موجود ہے اور ترسیلات زر کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔
وزارت سمندر پار پاکستانیز کے حکام کے مطابق اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے ترسیلات زر میں اضافے اور اگلے دس برس میں انہیں 30 ارب ڈالر سے بڑھا کر 60 ارب ڈالر تک لے جانے کا ایک منصوبہ تیار کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے وزارت خزانہ، وزارت اوورسیز پاکستانیز اور سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک جامع منصوبہ تیار کیا ہے جو اقتصادی رابطہ کمیٹی کو پیش کیا گیا ہے اور جس کا ابتدائی جائزہ بھی لیا جا چکا ہے۔
سعودی ریال بھجوانے پر خصوصی مراعاتی سکیم کی تجویز
اردو نیوز کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق نئے منصوبے میں سعودی عرب سے پاکستان بھیجی جانے والی ترسیلات زر پر بینکوں کو خصوصی مراعات دینے کی تجویز شامل ہے۔ ہر 100 ڈالر کی ترسیلات پر بینکوں کو 30 سعودی ریال بطور ٹی ٹی چارجز دیے جاتے ہیں۔ نئے منصوبے کے تحت اس 30 ریال کی رقم کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: ایک مستقل حصہ اور دوسرا غیر مستقل حصہ۔
مستقل حصے کے تحت 100 ڈالر یا اس سے زیادہ کی ہر ٹرانزیکشن پر بینکوں کو 20 سعودی ریال دیے جائیں گے، جبکہ غیر مستقل حصے کے تحت پچھلے سال کی نسبت زیادہ ترسیلات بھجوانے پر بینکوں کو اضافی 8 سے 15 سعودی ریال فی 100 ڈالر کی ٹرانزیکشن دیے جائیں گے۔ مزید برآں ہر 100 ملین ڈالر کی اضافی ترسیلات پر، بینکوں کو مزید 7 سعودی ریال فراہم کیے جائیں گے۔ اس طرح بینکوں کو 100 ڈالر کی ٹرانزیکشن پر 30 کے بجائے 35 سعودی ریال تک وصول کرنے کا موقع ملے گا۔ یہ چارجز سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ادا کیے جائیں گے۔
سٹیٹ بینک ہر ماہ بینکوں کی کارکردگی کا جائزہ لے گا اور ادائیگیاں اسی کے مطابق کی جائیں گی۔ مالی سال کی آخری سہ ماہی میں ادائیگیوں میں کسی بھی مطلوبہ ایڈجسٹمنٹ کو یکجا کر کے کیا جائے گا۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ نظرثانی بینکوں کو ترسیلات زر کے بہاؤ میں اضافے کے لیے اپنی کوششوں کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے کافی حوصلہ افزا ہے اور اس سے حکومت کے لیے ٹی ٹی چارجز کی لاگت کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔
ایکسچینج کمپنیوں کے لیے بھی مراعاتی سکیم
اس کے علاوہ، ایکسچینج کمپنیوں کے لیے بھی مراعاتی سکیم متعارف کرائی گئی ہے۔ اس سکیم کے تحت فکسڈ جزو کے لیے بنیادی شرح کو بڑھا کر ہر ڈالر پر 1 روپے سے 2 روپے کر دیا گیا ہے جو انٹر بینک مارکیٹ میں جمع کروایا جائے گا۔ غیر مستقل جزو کے تحت 25 ملین ڈالر تک کے اضافی ترسیلات پر ہر ڈالر کے بدلے 3 روپے کی ادائیگی کی جا سکتی ہے۔

حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کو ترغیب دینے کے لیے کئی سکیمیں متعارف کرائی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ایکسچینج کمپنیاں بھی ان مراعات سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں، جیسے کہ ایجنٹوں کے نیٹ ورک کو بڑھانا، کسٹمر سروس کو بہتر بنانا، اور مسابقتی ایکسچینج ریٹ کی پیشکش کرنا۔ وہ بینکوں اور فنانشل ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کر سکتی ہیں تاکہ زیادہ ہموار اور محفوظ ترسیلات زر کے آپشنز فراہم کر سکیں۔
اوورسیز پاکستانیوں کے لیے مراعات و اقدامات
حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کو ترغیب دینے کے لیے کئی سکیمیں متعارف کرائی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ ترسیلات زر بھیجنے والوں کو ’محسن پاکستان‘ ایوارڈ سے نوازا جائے گا۔ اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً مالیاتی سکیمیں بھی متعارف کرائی جائیں گی تاکہ اوورسیز پاکستانیوں کو ملک کی معاشی ترقی میں مزید حصہ لینے کی ترغیب دی جا سکے۔
سیکریٹری وزارت اوورسیز پاکستانیز ڈاکٹر ارشد محمود نے اردو نیوز کو بتایا کہ سمندر پار پاکستانیوں کو ملک کی معاشی طاقت کا ذریعہ سمجھتے ہوئے حکومت نے ترسیلات زر کی سہولت فراہم کرنے اور پاکستانی تارکین وطن کی مدد کے لیے کئی اضافی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔
کمیونٹی ویلفیئر اتاشیوں کی تقرری
حکومت نے خلیجی ممالک اور یورپ میں 26 نئے کمیونٹی ویلفیئر اتاشیوں کی تقرری کا اعلان کیا ہے۔ یہ اتاشی پاکستانی حکومت اور تارکین وطن کے درمیان رابطے کے طور پر کام کریں گے اور سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کریں گے۔
ہنر میں بہتری اور تربیت
حکومت نے پاکستان بھر میں 50 نئے ہنر مند مراکز قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ مراکز بیرون ملک جانے والی ورک فورس کو تربیت فراہم کریں گے اور انہیں بین الاقوامی مارکیٹوں میں ملازمت کے لیے تیار کریں گے۔ حکومت کا مقصد پاکستانی تارکین وطن کی کمائی کی صلاحیت کو بڑھانا ہے تاکہ ترسیلات زر میں اضافہ ہو سکے۔
نئی منڈیوں اور ملازمت کے مواقع کی تلاش
کمیونٹی ویلفیئر اتاشی پاکستانی کارکنوں کے لیے نئی ملازمتوں کے مواقع اور منڈیوں کی تلاش میں بھی مصروف ہوں گے۔ یہ اتاشی میزبان ممالک میں ابھرتی ہوئی صنعتوں کی نشاندہی کریں گے جہاں پاکستانی کارکنوں کو ملازمت کے مواقع مل سکتے ہیں۔ حکومت کا مقصد پاکستانی تارکین وطن کی ملازمت کو مختلف منڈیوں میں پھیلانا ہے تاکہ چند ممالک پر انحصار کم ہو اور ترسیلات زر کا پائیدار بہاؤ یقینی بنایا جا سکے۔

بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کے درمیان ترسیلات زر کے مارکیٹ کا زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لیے مسابقت بڑھنے کا امکان ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ترسیلات زر بڑھانے میں چیلنجز اور غور طلب امور
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت کے اقدامات امید افزا ہیں، لیکن ان کی مکمل صلاحیت کو حاصل کرنے کے لیے کئی چیلنجز کا سامنا بھی ہوگا۔
معاشی ماہر ڈاکٹر ساجد امین نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ حکومتیں سکیموں اور منصوبوں کے اعلانات تو کرتی ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کے لیے اقدامات نہیں کرتیں جس وجہ سے ان کی کامیابی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ یہ منصوبہ کامیاب ہو تو انھیں درج ذیل اقدامات کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
ضوابط کی پاسداری اور نگرانی
بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کو ان مراعاتی سکیموں کی شرائط پر عمل کرنے کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ سٹیٹ بینک کو فنڈز کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سخت نگرانی رکھنی ہو گی اور اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ انعامات حقیقی اضافے پر منحصر ہوں۔
مسابقت
بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کے درمیان ترسیلات زر کا مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لیے مسابقت بڑھنے کا امکان ہے، جس کی وجہ سے چھوٹے ادارے مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ سٹیٹ بینک کو اس مسابقتی ماحول کی نگرانی کرنی ہو گی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ مسابقت صحت مند رہے اور تمام ادارے ان مراعات سے فائدہ اٹھا سکیں۔
عالمی معاشی حالات
ان اقدامات کی کامیابی کا انحصار عالمی معاشی حالات پر بھی ہے۔ خاص طور پر خلیجی ممالک کی معیشتوں میں کسی بھی قسم کی گراوٹ پاکستانی تارکین وطن کے لیے ترسیلات زر بھیجنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتی ہے۔ حکومت کو عالمی معاشی حالات میں تبدیلیوں کے لیے چوکنا اور ردعمل دینے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔
مستقبل کے امکانات
ماہرین کے مطابق اگر حکومت کے یہ اقدامات کامیاب ہو جاتے ہیں تو پاکستان کی معیشت کو ایک مضبوط سہارا مل سکتا ہے۔ ترسیلات زر میں اضافے سے نہ صرف غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر مستحکم ہوں گے بلکہ حکومت کو معیشت کی دیگر ضروریات کے لیے بھی مالی وسائل فراہم ہوں گے۔ ان اقدامات کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا ملک سے تعلق اور مضبوط ہو گا۔ جب تارکین وطن کو حکومت کی جانب سے مراعات اور مواقع فراہم کیے جاتے ہیں، تو وہ مزید جوش و خروش سے ملکی ترقی میں حصہ لیتے ہیں۔

شیئر: