’امید کا پیغام لے کر آیا ہوں‘، پیرس پیرالمپکس میں شریک شامی پناہ گزین ایتھلیٹ
’امید کا پیغام لے کر آیا ہوں‘، پیرس پیرالمپکس میں شریک شامی پناہ گزین ایتھلیٹ
پیر 2 ستمبر 2024 17:03
ابراھیم الحسین نے کہا کہ پیرالمپکس میں شمولیت پر اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ فوٹو: اے پی
پیرس پیرالمپکس میں شرکت کرنے والے پناہ گزین پیرا اولمپک ٹیم کے ایتھلیٹ ابراہیم الحسین نے اپنی دوڑ مکمل کرنے کے بعد ’امید کا پیغام‘ دیا ہے۔
اے ایف پی نیوز ایجنسی کے مطابق شام میں پیدا ہونے والے ابراہیم الحسین نے آبائی وطن میں خانہ جنگی سے جان بچانے کے لیے 2014 میں یونان میں آباد ہونے سے پہلے ترکی میں پناہ لی۔
شام سے نکلنے میں کامیاب ہونے والے 35 سالہ ابراھیم 2012 میں ملک میں جنگ کے دوران زخمی ہونے کے بعد اپنی دائیں ٹانگ گنوا چکے تھے۔
شامی ایتھلیٹ ابراھیم الحسین نے پیر کو کہا ہے کہ ’وہ تیسرے پیرالمپکس گیمز میں حصہ لے رہے ہیں اور سب کو امید کا پیغام دینے کے لیے یہاں موجود ہیں۔‘
الحسین نے کہا ہے کہ ’سنجیدگی اور سخت محنت سے ہر کوئی اپنی زندگی کا مقصد حاصل کر سکتا ہے اور اپنی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔‘
ابراھیم الحسین نے 2016 میں ریو اولمپکس اور پھر ٹوکیو گیمز میں پیرا سوئمنگ میں حصہ لینے کے لیے جنگ، جسمانی معذوری اور نقل مکانی جیسی مشکلات کا سامنا کیا۔
تیسرے پیرالمپکس میں حصہ لینے والے شامی نوجوان ٹرائیتھلون میں مردوں کی ریس میں چھٹے نمبر پر رہے جو کہ نمایاں معذوری والے کھلاڑیوں کے لیے حوصلہ افزا ہے۔
الحسین نے ایک گھنٹہ 12 منٹ 34 سیکنڈ کے ریکارڈ وقت تک دوڑ میں شامل رہنے کے بعد کہا ’میں بہت خوش ہوں اور یہ میرے لیے بہت اچھا نتیجہ تھا۔ ٹاپ سکس میں شامل ہونا میرا ہدف تھا۔‘
ابراھیم الحسین نے پیرس پیرالمپکس میں شمولیت کا موقع فراہم کرنے پر اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی اور انٹرنیشنل پیرالمپک کمیٹی کا شکریہ ادا کیا ہے۔