حکومت پی ٹی آئی کے خلاف 9 مئی کے بعد والی پالیسی اپنائے گی؟
حکومت پی ٹی آئی کے خلاف 9 مئی کے بعد والی پالیسی اپنائے گی؟
منگل 10 ستمبر 2024 22:02
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
تجزیہ کاروں کے مطابق ’ارکان اسمبلی کو جس طرح گرفتار کیا گیا اس سے سپیکر کی ساکھ ضرور متاثر ہوگی‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)
پاکستان تحریک انصاف کے 8 ستمبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والے جلسے کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف ایک بار پھر کریک ڈاؤن کا آغاز کردیا گیا ہے اور 13 رہنما گرفتار کر لیے گئے ہیں۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کے خلاف دوبارہ 9 مئی کی طرز پر سخت پالیسی اپنانے جا رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف اپنے رہنماؤں کی گرفتاریوں کو پی ٹی آئی کے خلاف حکومت کی انتقامی کارروائیوں کا تسلسل بتا رہی ہے۔
پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما بیرسٹر علی ظفر نے اُردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’بلاشبہ حکومت اس وقت اُن کی پارٹی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے اور ہمارے خلاف 9 مئی کی طرز پر دوبارہ کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا ہے۔‘
دوسری جانب سینیٹ میں مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ ’پی ٹی آئی کو کسی انتقامی کارروائی کا نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ قانون اپنا راستہ خود بنا رہا ہے۔‘
وزیر دفاع خواجہ آصف نے منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی گرفتاریوں کو 8 ستمبر کے جلسے کا ردعمل قرار دیا جبکہ وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کو صرف اپنے کیے کی سزا مل رہی ہے۔‘
سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ جلسے میں اسٹیبلشمنٹ مخالف تقاریر کے بعد حکومت پی ٹی آئی کے خلاف دوبارہ سخت پالیسی اپناتی ہوئی نظر آرہی ہے۔اس کے ساتھ ہی فریقین کے درمیان مذاکرات کے امکانات بھی معدوم ہوگئے ہیں۔ ہمارے خلاف 9 مئی کے بعد کی کارروائیاں دہرائی جا رہی ہیں: بیرسٹر علی ظفر
جلسے کے لیے جاری این او سی کی خلاف ورزی اور پی ٹی آئی رہنماؤں کی سخت تقاریر کے ردِعمل میں بیرسٹر گوہر علی خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔
ان گرفتاریوں کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی قیادت، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر 9 مئی کے بعد اپنے خلاف کی گئی کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے کا الزام لگا رہی ہے۔
اُردو نیوز سے گفتگو میں سینیئر رہنما پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر علی ظفر نے ان گرفتاریوں کو انتقامی کارروائیاں قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’حکومت پی ٹی آئی کے خلاف دوبارہ 9 مئی کے بعد جیسے اقدامات کر رہی ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’8 ستمبر کے کامیاب جلسے کے بعد حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے، تاہم اس کے اوچھے ہتھکنڈوں کا ہم مقابلہ کریں گے۔‘
اُنہوں نے علی امین گنڈاپور کے مبینہ طور پر غائب ہونے کے معاملے پر بتایا کہ ’ابتدائی معلومات کے مطابق وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کو غائب کیا گیا تھا۔‘
بیرسٹر علی ظفر کا مزید کہنا تھا ’اگر یہ بات درست ہے تو پھر ملک میں اس سے بڑا بحران کوئی نہیں کہ آپ منتخب وزیراعلٰی کو غائب کر دیں۔‘
دوسری جانب سینیٹر عرفان صدیقی نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت نے پہلے پی ٹی آئی کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا نہ ہی آئندہ بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔‘
اُنہوں نے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے جلسے کے بعد حکومت کی جانب سے سخت فیصلے کرنے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت تمام تر اقدامات قانون کے مطابق ہی کیے جا رہے ہیں۔‘ پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاریاں 8 ستمبر کے جلسے کا ردِعمل ہے: خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاریوں کو 8 ستمبر کے جلسے کا ردِعمل قرار دیا۔
اُنہوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ’پیر کا واقعہ کچھ واقعات کا تسلسل ہے۔9 مئی کو سارے اہداف فوج کے چُنے گئے اور وہاں توہین کی گئی۔‘
’آپ کیپٹن شیر خان کا مجسمہ توڑ کر اُس کی توہین کریں، پھر 6 ستمبر کو جا کر فاتحہ خوانی کریں تو اس سے بڑی منافقت نہیں ہوسکتی۔‘
خواجہ آصف کے مطابق ’جب آپ کہیں کہ خان نہیں تو پاکستان نہیں تو پھر اس بات کا کیا ردِعمل آئے گا، ایسی تقاریر حکومت کے ردِعمل کو جواز فراہم کرتی ہیں۔‘
بیج اِنہوں نے بوئے اور فصل بھی یہی کاٹیں گے: عطا تارڑ
اس سے قبل وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ اپنے لیڈر کو چُھڑوانے جا رہے تھے اور خود بند ہو گئے۔ بیج اِنہوں نے بوئے اور فصل بھی یہی کاٹیں گے۔‘
’ماضی میں کسٹوڈین آف ہاﺅس کے بجائے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کی ہدایات وزیرِاعظم ہاﺅس سے آتی تھیں۔ عمران خان بتاتے تھے کہ کس کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنا ہے اور کس کا نہیں۔تب بھی انہیں سمجھایا تھا کہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔‘
تجزیہ کار ماجد نظامی کے مطابق علی امین گنڈاپور کی جذباتی تقریر کے بعد حکومت کی جانب سے 9 مئی کے بعد والی حکمتِ عملی اپنائی گئی ہے۔
’اگر پی ٹی آئی کے 8 ستمبر کے جلسے سے علی امین گنڈاپور کی تقریر نکال دی جائے تو وہ ایک کامیاب جلسہ تھا، تاہم اُس ایک حماقت کے بعد حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کی پیش رفت کا کوئی امکان نہیں بچا۔‘
اُنہوں نے اُردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ پارلیمنٹ کے اندر گُھس کر کمروں کی تلاشیاں اور پھر منتخب ارکان قومی اسمبلی کی گرفتاریاں شہباز شریف اور سپیکر قومی اسمبلی کی ساکھ کو ضرور متاثر کریں گی۔
’پی ٹی آئی کے جلسے کے بعد حکومت کی طرف سے آنے والا ردِعمل کوئی دانش مندانہ نہیں تھا، نقاب پوش افراد کا پارلیمنٹ کے اندر داخل ہونا مسلم لیگ ن کی سیاست کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا۔‘
سینیئر تجزیہ کار نصرت جاوید کے خیال میں ’ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ حکومت پی ٹی آئی کے خلاف دوبارہ نو مئی کے بعد والی حکمتِ عملی اپنائے گی یا نہیں۔‘
اُنہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’ایک طرف جلسے کے بعد پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی گرفتاریاں ہوئیں تو دوسری جانب سپیکر قومی اسمبلی نے ان واقعات کا فوری نوٹس لیا جس سے بیرسٹر گوہر کی رہائی ممکن ہوئی۔‘