اگر امریکہ دشمنی ترک کر دے تو اس کے ساتھ براہ راست بات چیت ممکن ہے: ایرانی صدر
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں جوہری معاہدے سے دستبرداری کی تھی (فوٹو اے ایف پی)
ایران کے صدر مسعود پیزشکیان نے کہا ہے کہ اگر امریکہ ’عملی طور پر‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایران کا دشمن نہیں ہے تو ایران امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات ہو سکتے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مسعود پیزشکیان پیر کو تہران میں ایک نیوز کانفرنس میں اس سوال کا جواب دے رہے تھے کہ آیا تہران 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ براہ راست بات چیت کے لیے تیار ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں یہ دلیل دیتے ہوئے اس معاہدے سے دستبرداری کی تھی کہ یہ تہران کے لیے بہت فراخ دل معاہدہ تھا، اور پھر ایران پر سخت امریکی پابندیوں کو بحال کر دیا جس سے تہران نے بتدریج معاہدے کی جوہری حدود کی خلاف ورزی کی۔
ایرانی صدر نے کہا کہ ’ہم امریکہ سے دشمنی نہیں رکھتے، انہیں عملی طور پر اپنی خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے خلاف اپنی دشمنی ختم کرنی چاہیے، ہم امریکیوں کے ساتھ بھائی بھی ہیں۔‘
جنوری 2021 میں عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے بات چیت کی کوشش کی جس کے تحت ایران نے امریکہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی پابندیوں سے نجات کے بدلے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کر دیا تھا۔
تاہم تہران نے واشنگٹن کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا اور بنیادی طور پر یورپی یا عرب ثالثوں کے ذریعے کام کیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ تہران نے یمن کے حوثیوں کو ہائپرسونک میزائل نہیں بھیجے ہیں، لیکن اس کے ایک دن بعد ایران کے حمایت یافتہ گروپ نے کہا تھا کہ اس کا اسرائیل پر داغا گیا میزائل ہائپرسونک تھا۔
وسطی اسرائیل میں کیے گئے اس اس میزائل حملے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل حوثیوں کو اس کی ’بھاری قیمت‘ چکانی پڑے گی۔
جبکہ ایرانی صدر نے کہا کہ ’ایک شخص کو یمن (ایران سے) جانے میں ایک ہفتہ لگتا ہے، یہ میزائل وہاں کیسے پہنچ سکتا تھا؟ ہمارے پاس یمن کو فراہم کرنے کے لیے ایسے میزائل نہیں ہیں۔‘
تاہم پچھلے سال ایران نے اس میزائل کی نمائش کی جسے اس نے تہران کا پہلا مقامی طور پر بنایا ہوا ہائپر سونک بیلسٹک میزائل قرار دیا۔ سرکاری میڈیا نے ایک تقریب میں ’فتح‘ نامی میزائل کی تصاویر شائع کیں۔