Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئینی ترمیم، ’بلاول بھٹو سیاسی جماعتوں سے مشاورت میں کردار ادا کریں گے‘

وزیراعظم نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا سلسلہ جاری رہے گا (فوٹو: پی ایم ہاؤس)
وزیر اعظم شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد کے درمیان ملاقات میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئینی ترمیم کے معاملے پر بلاول بھٹو زرداری سیاسی جماعتوں سے مشاورت میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے کے مطابق گذشتہ شب وزیراعظم شہباز شریف سے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد نے ملاقات کی۔ ملاقات میں مجوزہ آئینی ترمیم پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ آئین میں ترمیم اور قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے اور پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے۔ مجوزہ آئینی ترمیم کا مقصد عوام کو انصاف کی فوری اور موثر فراہمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم پر تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اعلامیے کے مطابق ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دیگر سینیئر رہنما بھی مشاورت میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
’آنے والے دنوں میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ مزید بات چیت اور مشاورت سے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی جائے گی۔‘
پیپلز پارٹی کے وفد میں اراکین قومی اسمبلی سید خورشید احمد شاہ سید نوید قمر اور مئیر کراچی مرتضیٰ وہاب شامل تھے۔
ملاقات میں وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ، وفاقی وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ بھی موجود تھے۔
خیال رہے ان دنوں وفاقی حکومت آئینی ترمیم کا بل پارلیمان میں لانے کی تیاری کر رہی ہے، اس حوالے سے اپنے اتحادیوں سے بھی رابطے کیے جا رہے ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمان کی حمایت بھی حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تاہم معاملات ابھی تک کسی نتیجے تک نہیں پہنچے ہیں۔ حکومتی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم کو پارلیمان سے منظور کروا لیا جائے گا تاہم دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں حکومتی اقدام کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔

مجوزہ آئینی ترمیم کے مسودے میں کیا ہے؟

وفاقی حکومت کی جانب سے مجوزہ آئینی ترمیم کا مسودہ کئی ٹکڑوں میں میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بن چکا ہے۔ جس میں کئی ایک حصوں کو حکومت کی جانب سے تسلیم کرتے ہوئے اسے آئینی پیکیج کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔
اس میں آئینی عدالت کے قیام، اس کے دائرہ اختیار کے تعین، آرمی ایکٹ میں ترامیم کو آئینی تحفظ فراہم کرنے، ججوں کی تقرری کے طریقہ کار اور آئین کے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجاویز شامل ہیں جبکہ کچھ مجوزہ ترامیم پر حکومت نے چپ سادھ رکھی ہے۔
اُردو نیوز کو دستیاب مسودے کے مطابق مجموعی طور پر 50 سے زائد ترامیم تجویز کی گئی ہیں، جن میں ججز کے متعلق اہم تبدیلیاں اور آرمی ایکٹ کو آئینی تحفظ دینے کی تجاویز شامل ہیں۔
خاص طور پر آئین کے آرٹیکل 63 اے میں مجوزہ ترمیم یہ کہتی ہے کہ اگر کوئی رکن پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے برخلاف ووٹ دے گا تو اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی، لیکن اس کا ووٹ شمار کیا جائے گا۔
یہ ایک بڑی تبدیلی ہے جو 2022 میں دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس ہے، جس میں ایسے ووٹ کو شمار نہ کرنے کا فیصلہ دیا گیا تھا۔
اس مجوزہ آئینی پیکیج میں سب سے بڑی ترمیم آئین کے آرٹیکل 17 میں تجویز کی گئی ہے جس کے تحت سپریم کورٹ کے متوازی ایک وفاقی آئینی عدالت تشکیل دی جائے گی۔

شیئر: