Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی وی کے ڈراموں کی مقبولیت ماضی کی نسبت کم کیوں ہوئی؟

افتخار عارف کے خیال میں پی ٹی وی کے ابتدائی 10 برس ہی ادارے کا ’عہد زریں‘ ہے (فائل فوٹو: پی ٹی وی آرکائیوز)
’خدا کی بستی‘، ’تنہایاں‘، ’وارث‘ جیسے مقبول ترین ڈرامے تخلیق کرنے والا پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) ڈراموں کی پروڈکشن کے حوالے سے ماضی جیسا مقبول نہیں رہا۔
ماضی میں پی ٹی وی کے شہرۂ آفاق ڈراموں کی نشریات کے اوقات میں گلیوں میں سناٹا طاری ہو جاتا تھا لیکن آج کل ناظرین کو سرکاری ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے ڈراموں کے نام تک یاد نہیں۔
فیض احمد فیض، مستنصر حسین تارڑ، امجد اسلام امجد اور اشفاق احمد جیسی بلند قامت شخصیات کی پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں سے وابستگی اِن کے اعلیٰ معیار کا سبب بنتی تھی۔
پاکستان ٹیلی وژن کے سابق ڈرامہ نگار سمجھتے ہیں کہ موجودہ دور کے اندر ادبی لوگوں کی پی ٹی وی کے ڈراموں میں عدم شمولیت اُن کے معیار کی گرنے کی ایک بڑی وجہ بن رہی ہے اور یوں ڈراموں کو زیادہ پسند بھی نہیں کیا جاتا۔
مزید برآں سرکاری ادارے کے مالی حالات اور میرٹ کا فقدان بھی پی ٹی وی کے ڈراموں کی زوال پزیری کا ایک سبب بن رہا ہے۔
نامور شاعر،ادیب اور پی ٹی وی کے سابق ڈرامہ نگار افتخار عارف سے جب پاکستان ٹیلی وژن کے موجودہ ڈراموں کی عدم مقبولیت کی وجہ جانی گئی تو اُنہوں نے پی ٹی وی کے ڈراموں سے ادیبوں، ناول و افسانہ نگاروں کی دوری کو ایک بنیادی وجہ قرار دیا۔ 
افتخار عارف کے خیال میں پاکستان ٹیلی وژن کے ابتدائی 10 برس ہی ادارے کا ’عہد زریں‘ ہے جس میں بے شمار اعلیٰ معیار کی تخلیقات سامنے آئیں۔
پی ٹی وی کے ماضی کے لاجواب ڈراموں کی تخلیق کے بارے میں افتخار عارف کا کہنا تھا کہ جب اُنہوں نے پی ٹی وی کے ڈرامے تخلیق کرنا شروع کیے تو اُس وقت ادب سے جڑے افراد کو ڈراموں میں لے کر آئے۔
اُنہوں نے اشفاق احمد، بانو قدسیہ، انتظار حسین، انور سجاد، احمد ندیم قاسمی، فیض احمد فیض، مستنصر حسین تارڑ اور امجد اسلام امجد کا تذکرہ کیا جنہوں نے پی ٹی وی کے شہرۂ آفاق ڈرامے تخلیق کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
’ان ادیبوں کے لکھے گئے ناول، کہانیوں اور افسانوں وغیرہ کی ڈرامائی تشکیل کروائی گئی جنہوں نے مقبولیت کے نئے جھنڈے گاڑے۔ اسی طرح ادیبوں کی صلاحیتوں کو ڈرامہ نگاری میں بھی بروئے کار لایا گیا اور شوکت صدیقی کے لکھے گئے ناول ’خدا کی بستی‘ کی ابتدائی سات اقسام کی ڈرامائی تشکیل فیض احمد فیض نے کی۔‘
’اب پی ٹی وی کے ڈراموں میں ادبیوں کا کردار کم ہو گیا‘
افتخار عارف نے پی ٹی وی کے ڈراموں کے معیار کی گراوٹ کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح پی ٹی وی کے ’عہد زریں‘ کا سبب ادب سے جڑے افراد تھے، اسی طرح آج پی ٹی وی کی ڈرامہ انڈسٹری کے زوال کی وجہ بھی ادیبوں، شعراء، ناول و افسانہ نگاروں کی عدم شمولیت ہے۔‘
اُنہوں نے اپنی گفتگو کے دوران مزید کہا کہ ’پی ٹی وی کے موجودہ ڈراموں میں سماجی اقدار کا پاس بھی اُس طرح سے نہیں رکھا جا رہا۔چونکہ ڈرامہ نگار معاشرے کے چارہ ساز اور مسیحا بھی ہوتے ہیں، ایسے ڈرامے تخلیق کرنے کی ضرورت ہے جو فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھے جا سکیں۔‘

پاکستان ٹیلی وژن نے گزشتہ ایک سال کے دوران 18 کروڑ 72 لاکھ 80 ہزار روپے کی پرائیویٹ پروڈکشنز خریدیں (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

کہانی پن کی مہارت
پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے افتخار عارف نے بتایا کہ ’پی ٹی وی کے ڈراموں میں کہانی پن کا فقدان نظر آتا ہے۔ کیسے مختلف تخلیقات کو کہانی کی شکل میں لمبا کھینچنا ہے، ایسی تکنیکی صلاحیتوں کا نہ ہونا ڈراموں کی نشریات میں نظر آتا ہے۔‘
پی ٹی وی کے پرانے ڈراموں کے پروڈیوسرز کے کردار کو سراہتے ہوئے افتخار عارف نے موجودہ دور کے پروڈیوسرز کی قابلیت اور اُن کی تعیناتی کے معیار کو ادارے کی ضرورت کے برخلاف قرار دیا ہے۔
اُنہوں نے پی ٹی وی کے سابقہ پروڈیوسرز کا تذکرہ کرتے ہوئے کنور آفتاب، محمد نثار حسین، محسن علی، شہزاد خلیل کا نام لیا جنہوں نے پی ٹی وی کے ڈراموں کو نئی جدت بخشی تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی وی میں کام کرنے والے یہ لوگ عوام کی نبض کو سمجھ کر کسی تخلیق پر کام کرتے تھے جو اُن کی کامیابی کی وجہ بنتا تھا۔‘
پی ٹی وی کے سابق پروڈیوسر اور ڈرامہ نگار شکیل عدنان ہاشمی پی ٹی وی کے ڈراموں کی عدم مقبولیت کی ایک سے زائد وجوہات بتاتے ہیں۔
اُنہوں نے پی ٹی وی کی ڈرامہ انڈسٹری پر سرکار کے اثرورسوخ کو بھی ادارے کی تنزلی کی ایک وجہ قرار دیا ہے۔اُن کے خیال میں ’مشرف دور میں نجی میڈیا آیا اور پھر پی ٹی وی مارکیٹ کا مقابلہ نہ کر سکا۔‘

مالی خسارے کا شکار سرکاری ٹیلی ویژن نجی پروگراموں کی خریداری پر کروڑوں روپے خرچ کر رہا ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

شکیل عدنان ہاشمی کے مطابق مالی اور انتظامی مسائل کے ساتھ ساتھ پی ٹی وی میں اچھے رائٹرز، پروڈیوسرز اور ہدایت کاروں کی کمی بھی انڈسٹری کے زوال کا سبب رہی ہے۔
انہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’سرکاری ادارے میں ان اہم عہدوں پر سفارش اور پسند اور ناپسند کی بنیاد پر تعیناتیاں کی جاتی ہیں اور پھر کسی بڑی تخلیق کے بغیر ہی ان افراد کو بڑے عہدوں پر بٹھا دیا جاتا ہے۔‘
’پروڈکشن ہاؤسز سے خدمات، ڈراموں کے معیار کو گرا رہی ہیں ‘
شکیل عدنان ہاشمی نے پاکستان ٹیلی وژن کی طرف سے نجی پروڈکشنز خریدنے کے پہلوؤں پر گفتگو کرتے کہا کہ ’پی ٹی وی کی پہچان ہی اپنے بنائے گئے ڈرامے ہوا کرتے تھے تاہم اب پی ٹی نجی پروڈکشنز کا سہارا لے کر اپنی ضرورت پوری کر رہا ہے جو پی ٹی وی کے ڈراموں کے معیار کو گرا رہی ہے۔‘
پاکستان ٹیلی وژن نے گزشتہ ایک سال کے دوران 18 کروڑ 72 لاکھ 80 ہزار روپے کی پرائیویٹ پروڈکشنز خریدیں۔

ڈرامہ نگار شکیل عدنان ہاشمی پی ٹی وی کے ڈراموں کی عدم مقبولیت کی ایک سے زائد وجوہات بتاتے ہیں (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

واضح رہے مالی خسارے کا شکار سرکاری ٹیلی وژن نجی پروگراموں کی خریداری پر کروڑوں روپے خرچ کر رہا ہے۔
اُردو نیوز کو موصول دستاویزات کے مطابق گزشتہ ایک برس میں سرکاری ٹیلی ویژن کی جانب سے پرائیویٹ پروڈکشنز خریدنے پر 18 کروڑ 72 لاکھ 80 ہزار روپے کی لاگت آئی ہے۔
سرکاری ٹیلی ویژن نے گزشتہ ایک برس میں ایک ڈرامہ سیریل، چار سوپ جبکہ ایک ڈاکیومنٹری نجی تخلیق کاروں سے خریدی۔ ڈرامہ سیریل ’ہوئے تم اجنبی‘ سات کروڑ 20 لاکھ کی خطیر رقم کے عوض خریدا گیا۔

شیئر: