نیویارک میوزیم سے مصنفہ جھمپا لہیری کا ایوارڈ وصول کرنے سے انکار
نیویارک میوزیم سے مصنفہ جھمپا لہیری کا ایوارڈ وصول کرنے سے انکار
جمعرات 26 ستمبر 2024 17:51
میوزیم نے کیفیہ (فلسطینی ہیڈ سکارف) پہننے پر3 ملازموں کو برطرف کر دیا تھا۔ فوٹو انسٹاگرام
نیویارک سٹی کے نوگوچی میوزیم سے ’پولٹزر‘ ایوارڈ یافتہ انڈین نژاد امریکی مصنفہ جھمپا لہیری نے اسامو نوگوچی ایوارڈ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
برطانیہ کی روئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق نوگوچی میوزیم نے اپنے تازہ ترین ڈریس کوڈ کے بعد فلسطینیوں کی یکجہتی کی علامت سمجھے جانے والے کیفیہ (فلسطینی ہیڈ سکارف) پہننے کی پاداش میں اپنے تین ملازمین کو برطرف کر دیا تھا۔
نیویارک میوزیم نے بدھ کو اپنے بیان میں کہا ’ہماری اپڈیٹ ڈریس کوڈ پالیسی کے جواب میں جھمپا لہیری نے 2024 کے اسامو نوگوچی ایوارڈ کی قبولیت سے انکار کیا ہے۔‘
تفصیلات کے مطابق جاپانی امریکی مجسمہ ساز اسامو نوگوچی کے نام سے قائم کئے گئے نیویاک آرٹ میوزیم نے گذشتہ ماہ اپنی پالیسی کا اعلان کیا تھا جس میں ملازمین کو ایسی کوئی بھی چیز پہننا منع تھی جس سے ’سیاسی پیغامات، نعرے یا علامت‘ کا اظہار ہوتا ہو تاہم ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی پر تین ملازمین کو فارغ کیا گیا تھا۔
میوزیم کے بیان میں مزید کہا گیا ہے ’ہم ان کے نقطہ نظر کا احترام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس پالیسی ہر کسی کے خیالات مختلف ہو سکتے ہیں۔
امریکی مصنفہ جھمپا لہیری کو 2000 میں ان کی تحریر کردہ کتاب ’Interpreter of Maladies‘ پر صحافت اور فنون کے شعبے سے متعلق ’پولٹزر ایوارڈ‘ سے نوازا گیا تھا۔ یہ خبر سب سے پہلے نیویارک ٹائمز نے شائع کی ہے۔
غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والے دنیا بھر کے متعدد مظاہرین فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی علامت سمجھے جانے والے ’کیفیہ‘ سیاہ اور سفید ہیڈ سکارف پہنتے ہیں۔
جنوبی افریقہ کے رہنما نیلسن منڈیلا کو بھی کئی مواقع پر نسل پرستی کے خلاف فلسطینی علامت سمجھے جانے والا کیفیہ سکارف پہنے دیکھا گیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ عمل انتہا پسندی کی پشت پناہی کی جانب ایک اشارہ ہے۔
قبل ازیں نومبر میں امریکی ریاست ورمونٹ میں فلسطینی نژاد تین طالب علموں کو ایک حملے میں گولی مار دی گئی تھی جن میں سے دو نے کیفیہ ہیڈ سکارف پہن رکھا تھا۔
اسرائیل پر فلسطینی حماس کے عسکریت پسندوں کے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد غزہ پر اسرائیل کے حملوں میں اب تک چالیس ہزار افراد ہلاک اور علاقے کے تقریباً سبھی افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
اسرائیل اور غزہ جنگ پر اپنے ذاتی موقف کی وجہ سے امریکہ میں اب تک کئی افراد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
نیویارک شہر کے ایک ہسپتال نے مئی میں فلسطین نژاد امریکی نرس کو اس وقت نوکری سے برطرف کر دیا تھا جب انہوں نے ایک ایوارڈ وصول کرتے ہوئے اپنی تقریر کے دوران غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کو ’نسل کشی‘ قرار دیا تھا۔
دوسری جانب اسرائیل نے عالمی عدالت میں جنوبی افریقہ کی طرف سے لگائے گئے ’نسل کشی‘ کے الزامات کی تردید کی ہے۔