Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشرق وسطیٰ میں امریکی فوج، کون سا طیارہ بردار بحری جہاز کہاں موجود ہے؟

خطے میں درجن سے زیادہ امریکی طیارہ بردار بحری جہاز بھی موجود ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی افواج اور اتحادیوں کے تحفظ کو بڑھانے کے لیے امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق خطے میں امریکی فوجیوں کی کُل تعداد 43 ہزار تک پہنچ گئی ہے اور درجن سے زیادہ  طیارہ بردار بحری جہاز بھی موجود ہیں۔
لبنان میں اسرائیلی حملوں میں تیزی اور ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ اور اس کے کئی اعلٰی کمانڈروں اور عہدیداروں کی ہلاکت وہ نمایاں واقعات ہیں جس نے مشرق وسطیٰ میں جنگ کے خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔
امریکی فضائیہ کے میجر جنرل پیٹ رائڈر نے کہا ہے کہ وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اضافی امریکی افواج کی تیاری کی ہدایت کی ہے تاکہ وہ کسی بھی ہنگامی صورتحال کے لیے تیار رہیں۔

مشرق وسطیٰ میں امریکی فوج کی موجودگی پر ایک نظر

فوجی دستے
تقریباً 34 ہزار امریکی افواج امریکی سینٹرل کمانڈ میں تعینات ہیں۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے ابتدائی مہینوں میں یہ تعداد بڑھ کر تقریباً 40 ہزار ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ اضافی بحری جہاز اور طیارے بھی بھیجے گئے۔
اب یہ تعداد تقریباً 50 ہزار تک پہنچ گئی ہے، جب اسرائیل اور لبنان کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے بعد وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے دو طیارہ بردار بحری جہاز اور لڑاکا طیاروں کو خطے میں موجود رہنے کا حکم دیا۔

زیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اضافی امریکی افواج کی تیاری کی ہدایت کی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پینٹاگون نے حال ہی میں کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں اضافی فوجی اہلکار بھیج رہے ہیں۔ حکام نے قبرص میں تعیناتی کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں لیکن تجویز دی ہے کہ یہ ٹیمیں خطے میں کسی بھی ضرورت کے لیے جاری تیاریوں کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ ممکن ہے کہ لبنان سے امریکیوں کے انخلا میں مدد کر سکیں۔
امریکی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فوجیوں کی تعیناتی کے بارے میں کہا کہ عسکری طاقت میں اضافہ اسرائیل کے دفاع اور امریکی اور اتحادیوں کے اہلکاروں اور اثاثوں کی حفاظت میں مدد کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
بحریہ کے طیارہ بردار بحری جنگی جہاز مشرقی بحیرہ روم سے لے کر خلیج عمان تک پورے خطے میں موجود ہیں، اور فضائیہ اور بحریہ کے لڑاکا طیارے حکمت عملی کے لحاظ سے کئی مقامات پر موجود ہیں تاکہ کسی بھی حملے کا جواب دینے کے لیے بہتر طور پر تیار رہیں۔
طیارہ بردار جنگی بحری جہاز
امریکہ کے پاس خطے میں یو ایس ایس ابراہم لنکن طیارہ بردار بحری جہاز ہے جس نے اکتوبر کے وسط میں روانہ ہونا تھا تاہم ایک امریکی عہدیدار کے مطابق لائیڈ آسٹن نے اس کو مزید ایک ماہ کے لیے مشرق وسطیٰ میں موجود رہنے کا حکم دیا ہے۔
امریکی وزیر دفاع نے گزشتہ ایک سال میں کئی بار اس خطے میں چند دیگر طیارہ بردار بحری جہازوں اور لڑاکا طیاروں کے لیے بھی ایسا ہی حکم جاری کیا تھا۔

گزشتہ ماہ وزیر دفاع نے یو ایس ایس جارجیا گائیڈڈ میزائل آبدوز کو بھی بھیجنے کا حکم دیا تھا۔ (فوٹو: یو ایس نیوی)

دوسرا طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس ہیری ایس ٹرومین دو ڈسٹرائیر اور ایک کروز کے ساتھ مشرق کی طرف بحر اوقیانوس میں موجود ہیں۔ اگلے چند دنوں میں یہ یورپ میں ہوں گے اور پھر بحیرہ روم کی جانب روانہ ہوں گے۔
امریکی فوجی کمانڈروں نے طویل عرصے سے یہ دلیل دی ہے کہ ایک طاقتور طیارہ بردار بحری جہاز، لڑاکا طیارے اور جدید ترین میزائلوں کے ساتھ نگرانی کرنے والے طیارے ایران کے خلاف ایک مضبوط دفاع فراہم کرتے ہیں۔
یو ایس ایس ابراھم لنکن اور ایک ڈسٹرائیر خلیج عمان میں موجود ہیں جبکہ امریکی بحریہ کے چار ڈسٹرائیر ایک جنگی جہاز بحیرہ احمر میں ہیں۔ گزشتہ ماہ وزیر دفاع نے یو ایس ایس جارجیا گائیڈڈ میزائل آبدوز کو بھی بھیجنے کا حکم دیا تھا۔
مشرقی بحیرہ روم میں چھ امریکی جنگی جہاز موجود ہیں جو یو ایس ایس واسپ ایمفیبیئس اسالٹ شپ ہیں۔
تقریباً ایک درجن ایف اے 18 لڑاکا طیاروں کو یو ایس ایس ابراہم لنکن سے زمینی اڈے پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ حکام نے یہ بھی بتانے سے انکار کر دیا کہ کہاں یہ طیارے منتقل کیے گئے۔

لڑاکا طیارے ایف 22 بھی روانہ کیے گئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لڑاکا طیارے
اگست میں ایئرفورس نے لڑاکا طیاروں کا ایک اضافی سکواڈرن ایف 22 بھی بھیجا گیا ہے جس کے بعد مشرق وسطیٰ میں زمین پر فائٹڑ سکواڈرن کی کُل تعداد چار ہو گئی ہے۔
ایئرفورس میں زمینی حملے کے لیے اے ٹین تھندڑ بولٹ ٹو کا سکواڈرن، ایف 15 ای اور ایف 16 لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔ ایئرفورس کی جانب سے اب تک یہ نہیں کہا گیا ہے کہ یہ طیارے کِن ممالک میں سے آپریٹ ہو رہے ہیں۔
پینٹاگون کی ترجمان سبرینا سنگھ نے کہا ہے کہ فضائی طاقت کو بڑھانے کے لیے امریکہ اب مزید لڑاکا طیارے بھیج رہا ہے جن میں ایف 15 ای، ایف 16 اور ایف 22 شامل ہیں۔

شیئر: