Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور میں اغوا کار خواتین پولیس کے لیے ایک بڑا چیلنج کیسے بن رہی ہیں؟

اغوا کار خواتین سے متعلق سب سے زیادہ مقدمات لاہور کے تھانہ داتا دربار میں درج ہوتے ہیں (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
ان کی عمر صرف 14 برس تھی اور اپنے ماموں سے ڈانٹ کھانے کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ واپس گھر نہیں جائیں گی۔
فائزہ (فرضی نام) لاہور کے علاقے مغل پورہ کی رہائشی ہیں اور ان کے والدین اس دنیا میں نہیں ہیں۔ وہ مغل پورہ سے پیدل ہی پہلے ریلوے سٹیشن اور پھر داتا دربار کے علاقے میں آ گئیں۔
اس علاقے میں سرکاری پناہ گاہ کے علاوہ بھی کھلے آسمان تلے بڑی تعداد میں بے گھر افراد رہتے ہیں۔
یہ ستمبر کا مہینہ تھا اور اس علاقے میں آئے انہیں چند گھنٹے ہی ہوئے تھے کہ ایک خاتون نے آکر اپنا تعارف کروایا۔
داتا دربار پولیس سٹیشن کے انچارج انویسٹی گیشن غلام ثقلین گوندل نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ عظمیٰ نامی خاتون اکیلی نہیں تھی۔ وہ بظاہر ایک گینگ کا حصہ تھی۔ اس نے لڑکی کو وہاں سے جھانسہ دے کر نکالا اور پھر باہر جا کر اسے بے ہوش کیا۔ اس کے ساتھ ایک مرد بھی تھا۔ وہ فائزہ کو شیخوپورہ لے گئے اور پھر وہاں سے اسے سندھ میں نوشہرہ کے علاقے میں لے گئے۔‘
دوسری طرف لڑکی کے ماموں نے ایک ہفتہ تک پولیس کو اس کے غائب ہونے کی اطلاع نہیں دی۔ تاہم اطلاع ملنے پر مقدمہ درج کر لیا گیا۔
غلام دستگیر بتاتے ہیں کہ ’نوشہرہ کے نواح میں یہ کچے کا علاقہ تھا جہاں اسے رکھا گیا تھا۔ لڑکی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کسی گروہ کے چنگل میں پھنس گئی ہے۔ اس کے دماغ نے کام کیا اور موقع پا کر اس نے کسی کے موبائل فون سے اپنے ماموں کو کال کی اور جتنا بتا سکتی تھی بتا کر فون بند کر دیا۔‘
اس کے بعد لاہور پولیس نے سندھ پولیس کی مدد سے وہ جگہ ڈھونڈ نکالی اور لڑکی کو بازیاب کروا لیا۔
ستمبر کے ہی آخری ہفتے میں، شیخوپورہ سے ایک ماں اپنے خاوند سے جھگڑ کر اپنی 18 سالہ بیٹی اور بیٹے کو لے کر لاہور آ گئی۔
وہ بھی اسی علاقے میں قیام پذیر تھی۔ تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق ایک خاتون نے جوان لڑکی سے تھوڑی راہ و رسم بنائی اور پھر شام کے بعد سے لڑکی غائب ہو گئی۔
انچارج انویسٹی گیشن داتا دربار پولیس سٹیشن بتاتے ہیں کہ ’جیسے ہی ماں کو احساس ہوا کہ بیٹی غائب ہو گئی ہے تو وہ فوری تھانے پہنچی اور درخواست دی کہ اس کی بیٹی اغوا کر لی گئی ہے۔ اسی وقت ہی پرچہ درج ہوا جس افسر کو تفتیش سونپی گئی، اس نے کمال مہارت کا مظاہرہ کیا اور سیف سٹی اور سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کو کھنگالنا شروع کر دیا۔‘
پولیس نے کیمروں کی مدد سے سراغ لگا لیا کہ وہ خاتون لڑکی کو ٹکسالی کے علاقے میں لے جا کر غائب ہو گئی ہے۔ جس کے بعد پولیس نے اس علاقے کی ناکہ بندی کر دی۔

اغوا کار زیادہ تر عموماً ان علاقوں میں متحرک ہوتے ہیں جہاں زیادہ تر بے گھر افراد پائے جاتے ہیں (فائل فوٹو: شٹرسٹاک)

ثقلین گوندل کہتے ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ اس لڑکی کی قسمت اچھی تھی کہ تفتیش پر مامور افسر بہت دلجمعی سے اس کیس کو فالو کر رہے تھے۔ وہ خاتون ایک دن کے بعد وہاں سے نکلی اور لڑکی اس کے ساتھ تھی تو اسی وقت اسے گرفتار کر لیا گیا۔ یہ خاتون ریکارڈ یافتہ نکلی جس پر پہلے بھی اغوا کا مقدمہ درج تھا۔ اور وہ اس لڑکی کو ملتان لے کر جا رہی تھی۔‘
خواتین اغوا کار ایک بڑا مسئلہ
ایس ایس پی انویسٹی گیشن محمد نوید کہتے ہیں کہ ’مختلف گروہ جو اس طرح کے اغوا کے لیے خواتین گینگ ممبرز کو استعمال کرتے ہیں۔ ان کا ٹارگٹ ایسی جگہیں ہوتی ہیں جو کہ بے گھر افراد کی آماجگاہیں ہیں۔ اور یہ کافی تجربہ کار عورتیں ہیں جو تھوڑی ہی دیر میں اپنے شکار کو ورغلا لینے کی مہارت رکھتی ہیں۔ ان کا ٹارگٹ عام طور لڑکیاں اور بچے ہوتے ہیں جو ان کو اغوا کرنے کے بعد آگے بیچ ڈالتی ہیں۔‘
پولیس نے مزید دو لڑکیوں کو ایسے گروہوں سے بازیاب کروایا ہے اور اس تفتیش میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ ان کو آگے بیچنے کا ارادہ رکھتی تھیں۔
ایس ایس پی کے مطابق ’یہ اغوا کار خواتین عام طور پر ایسے بھیس میں ہوتی ہیں جس سے ان کی شخصیت پروقار دکھتی ہے اور یہ مذہبی مقامات کو زیادہ نشانہ بناتی ہیں کیونکہ انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ عام چیکنگ میں بھی ان سے کیا ہی پوچھ گچھ ہو سکتی ہے۔ تو اس چیز کا وہ فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ جیسے ہی ایسے کسی واقعے کی اطلاع ملے تو بغیر کسی وقت ضائع کیے ملزمان کو پکڑا جائے۔‘
ان اغوا کار خواتین سے متعلق سب سے زیادہ مقدمات لاہور کے تھانہ داتا دربار میں درج ہوتے ہیں۔
انچارج انویسٹی گیشن ثقلین گوندل کہتے ہیں کہ اس کی وجہ اس علاقے میں بے گھر افراد کا زیادہ پایا جانا ہے۔ 

شیئر: