’بیگمات بات نہیں مانتیں‘، چترال کے جینڈر رسپانس سینٹر میں مَردوں کی شکایات
’بیگمات بات نہیں مانتیں‘، چترال کے جینڈر رسپانس سینٹر میں مَردوں کی شکایات
منگل 29 اکتوبر 2024 16:02
فیاض احمد، اردو نیوز۔ پشاور
چترال پولیس کے جینڈر رسپانس سینٹر میں پہلی بار مردوں کی جانب سے شکایات درج ہوئیں(فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع چترال میں خودکشی کی روک تھام اور اس کی وجوہات جاننے کے لیے رواں برس 20 مئی کو ضلعی پولیس کی جانب سے سوئیسائیڈ پریوینشن یونٹ اور جینڈر رسپانس سینٹر قائم کیا گیا۔
پولیس کے ان خصوصی مراکز میں گزشتہ چھ ماہ کے دوران مختلف نوعیت کی 144 شکایات موصول ہوئیں جن میں خواتین کے گھریلو تنازعات کے 47 کیسز بھی رپورٹ ہوئے۔
خواتین کی جانب سے وراثت کی تین اور ہراسیت کی 9 درخواستیں درج کروائی گئیں۔
پولیس کی رپورٹ کے مطابق 12 خواتین کے اقدامِ خودکشی کے واقعات بھی درج ہوئے۔ ان کیسز میں سے زیادہ تر میں گھریلو ناچاقی کی وجوہات سامنے آئیں جن کے سبب ایک میں متاثرہ خاتون نے خودکشی کی ناکام کوشش کی تھی۔
خواتین کی شکایت پر فوری عمل درآمد
جینڈر رسپانس یونٹ کی انچارج دلشاد پری کے مطابق ’خواتین کی جانب سے درج تمام درخواستوں پر ترجیحی بنیادوں پر عمل درآمد کر کے شکایات کو حل کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’گھریلو تشدد اور دیگر گھریلو مسائل کی وجہ سے کچھ خواتین نے اپنی جان لینے کی کوشش بھی کی مگر سوئیسائڈ پروینشن یونٹ کی کونسلنگ کی بدولت متاثرہ خواتین میں زندگی کی امید پیدا ہوئی۔‘
دلشاد پری کے مطابق کئی خواتین کا اُن کے شوہروں کے ساتھ راضی نامہ کروا کے انہیں واپس گھر بھجوا دیا گیا ہے جو اب ہنسی خوشی زندگی گزار رہی ہیں۔
مردوں کی اپنی بیگمات کے خلاف درخواستیں
چترال پولیس کے جینڈر رسپانس سینٹر میں پہلی بار مردوں کی جانب سے شکایات درج ہوئیں جن میں شوہروں نے بیویوں کو سمجھانے کی درخواست کی۔
انچارج ڈیسک دلشاد پری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مردوں کی جانب سے گھریلو جھگڑے کی 10 شکایات درج ہوئیں جن میں سے اکثر میں شوہروں نے بیویوں سے اُن کی بات نہ ماننے کا شکوہ کیا ہے جبکہ لڑائی جھگڑوں سے متعلق شکایات بھی درج کروائی گئی ہیں۔‘
خاتون پولیس آفیسر نے کہا کہ ’گھریلو تنازعات کی بڑی وجہ موبائل فون اور سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال ہے جو بڑے مسائل کو جنم دے رہا ہے۔‘
پولیس کے مطابق ’گھریلو ناچاقی کی وجہ سے بات علیحدگی تک پہنچ گئی تھی تاہم پولیس کی کوششوں سے درخواست گزار میاں بیوی کے اختلافات دور کروا دیے گئے ہیں ۔ پولیس کے پاس ہراسیت کے کیسز بھی آئے تھے جن پر فوری کارروائی کی گئی ہے۔‘
ماہر نفسیات کی رائے
ماہر نفسیات ڈاکٹر خالد مفتی سمجھتے ہیں کہ ’سوئیسائیڈ پریوینشن یونٹ کا اقدام قابل تحسین ہے، ایسے کیسز میں متاثرہ فرد کو سننے سے نصف سے زیادہ مسائل حل ہو جاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’متاثرہ شخص اسی وقت خودکشی کی کوشش کرتا ہے جب اسے کوئی سننے یا سمجھنے والا نہ ہو۔‘
ڈاکٹر خالد مفتی نے کہا کہ ’خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کے مسائل بھی پیچیدہ ہوتے ہیں۔ گھر میں اگر ناچاقی ہو تو اسی وقت فریقین کو صفائی کا موقع ملنا چاہیے جس کے باعث تنازعات حل ہو جاتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سوشل میڈیا کی وجہ سے بیش تر افراد کی ازدواجی زندگی متاثر ہوئی ہے۔ موبائل فون کے زیادہ استعمال سے رشتوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں جو میاں بیوی دونوں کے لیے تباہ کن ہیں۔‘
چترال میں گزشتہ دو برس کے دوران 25 سے زائد خواتین جبکہ 15 مردوں نے خودکشی کرکے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔