سعودی، امریکی دوطرفہ معاہدے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے سے منسلک نہیں: سعودی وزیر خارجہ
جمعرات 31 اکتوبر 2024 22:06
وزیر خارجہ نے کہا کہ تجارت اور مصنوعی ذہانت سے متعلق ممکنہ سعودی، امریکی معاہدے ’کسی تیسرے فریق سے منسلک نہیں ہیں۔‘ (فوٹو اے ایف پی)
سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ مملکت واشنگٹن کے ساتھ جن دوطرفہ معاہدوں پر بات چیت کر رہی ہے ان کا ’اسرائیل کے ساتھ سعودی تعلقات کو معمول پر لانے سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ اور ان میں ’پیش رفت ہو رہی ہے۔‘
عرب نیوز کے مطابق جمعرات کو انہوں نے کہا کہ تجارت اور مصنوعی ذہانت سے متعلق ممکنہ سعودی، امریکی معاہدے ’کسی تیسرے فریق سے منسلک نہیں ہیں‘ اور ’غالباً بہت تیزی سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔‘
’کچھ زیادہ اہم دفاعی تعاون کے معاہدے بہت زیادہ پیچیدہ ہیں۔ ہم یقینی طور پر بائیڈن انتظامیہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے ان کو حتمی شکل دینے کے موقع کا خیرمقدم کریں گے، لیکن یہ عوامل ہمارے کنٹرول سے باہر ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دوسرے کام اتنے جڑے ہوئے نہیں ہیں، اور ان میں سے کچھ تیزی سے ترقی کر رہے ہیں، اور ہم امید کرتے ہیں کہ آگے بڑھیں گے۔‘
سعودی عرب کی جانب سے فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے شہزادہ فیصل نے کہا کہ اسرائیل کی قبولیت سے قطع نظر یہ واحد قابل عمل حل ہے۔
ریاض میں فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کی جڑیں بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں ہیں۔
’حقیقت میں فلسطینی ریاست کے قیام کا اسرائیل کے قبول کرنے یا نہ کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بین الاقوامی قانون کے اصولوں سے منسلک ہے، اقوام متحدہ کی قراردادیں جو اسرائیل کی ریاست کے قیام کا باعث بنی، ان میں بھی واضح طور پر ایک فلسطینی ریاست کا تصور کیا گیا تھا، لہذا ہمیں ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔‘
شہزادہ فیصل نے زور دے کر کہا کہ جب تک فلسطینی ریاست کے حوالے سے کوئی قرارداد نہیں آتی سعودی اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے کا ’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘
انہوں نے مزید وسیع تر مضمرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’اگر ہم فلسطینیوں کے حقوق پر توجہ نہیں دیتے ہیں تو مجموعی طور پر خطے کی سلامتی خطرے میں ہے۔‘
غزہ میں جاری بحران کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے 7 اکتوبر کے واقعات کے بعد اسرائیل کے حد سے زیادہ ردعمل کے خطرات پر زور دیتے ہوئے جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
شہزادہ فیصل نے لبنان کے بارے میں سعودی عرب کا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم کبھی بھی مکمل طور پر منقطع نہیں ہوئے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ لبنانی سیاست دانوں پر منحصر ہے کہ وہ ایسی سمت تلاش کریں جو لبنان کو صحیح راستے پر گامزن کرے۔‘
ایران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے شہزادہ فیصل نے عندیہ دیا کہ حالیہ بات چیت علاقائی تناؤ پر مرکوز ہے۔ ’مجھے امید ہے کہ ایران ہماری طرح صرف لبنان میں ہی نہیں، تمام محاذوں پر علاقائی کشیدگی میں کمی کے لیے کام کر رہا ہے۔‘
’میں نے اپنے ایرانی ہم منصب پر واضح کر دیا ہے کہ مزید کشیدگی سے بچنا ضروری ہے۔ میرا احساس یہ ہے کہ وہ کشیدگی بڑھنے کے خطرات کو سمجھتے ہیں اور اس سے بچنے کو ترجیح دیں گے۔ لیکن، یقیناً ان کا اپنا سٹریٹجک حساب ہے۔‘