داعش کی خاموشی سے مالی معاونت کرنے والے ’طاقتور شخص‘ عبدالقادر مومن
داعش کی خاموشی سے مالی معاونت کرنے والے ’طاقتور شخص‘ عبدالقادر مومن
پیر 6 جنوری 2025 7:53
داعش کے رہنما عبدالقادر مومن سویڈن اور برطانیہ میں بھی رہ چکے ہیں۔ فوٹو: وکیپیڈیا
دہشت گرد تنظیم داعش کے صومالیہ سے تعلق رکھنے والے رہنما عبدالقادر مومن اگرچہ باضابطہ طور پر گروپ کے سربراہ نہیں ہیں لیکن وہ انتہائی اہم اور طاقتور شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانوی تحقیقاتی ادارے انٹرنیشنل سینٹر فار دا سٹڈی آف ریڈیکلائزیشن سے وابستہ ٹور ہمنگ کا کہنا ہے کہ عبدالقادر مومن سب سے زیادہ طاقتور شخص ہیں اور دولت اسلامیہ کے عالمی نیٹ ورک کو بھی یہی کنٹرول کر رہے ہیں۔
ٹور ہمنگ کے مطابق ماضی میں داعش کے سربراہ باری باری امریکی فورسز کا نشانہ بنتے رہے ہیں لیکن عبدالقادر مومن ان چند سینیئر شخصیات میں سے ہیں جو اس تمام عرصے میں خود کو حملوں سے بچانے میں کامیاب رہے۔
چند ماہ قبل یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ عبدالقادر مومن امریکی حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں لیکن ثبوت نہ ہونے کی صورت میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور گروپ کے اندر بھی فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔
ریسرچر ٹور ہمنگ کے مطابق صومالیہ مالی اعتبار سے اہم ملک سمجھا جاتا ہے اور کانگو، موزمبیق، جنوبی افریقہ، یمن اور افغانستان میں بھی مالی معاونت کی غرض سے رقم بھجواتا رہا ہے۔
صومالیہ کے نیم خود مختار علاقے پنٹ لینڈ میں پیدا ہونے والے عبدالقادر مومن سویڈن اور انگلینڈ میں بھی رہتے رہے ہیں جبکہ بعد میں انہیں برطانیہ کی شہریت مل گئی تھی۔
سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں عبدالقادر مومن لندن اور لیسٹر میں شعلہ بیان مبلغ کے طور پر جانے جاتے تھے اور انٹرنیٹ پر بھی ان کی ویڈیوز موجود ہیں۔
عبدالقادر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ صومالیہ پہنچتے ہی انہوں نے اپنا پاسپورٹ نذر آتش کر دیا تھا اور الشباب گروپ سے منسلک ہو گئے تھے جبکہ بعد ازاں سال 2015 میں داعش میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
یورپی ملک سے تعلق رکھنے والے ایک انٹیلیجنس افسر کا کہنا ہے کہ عبدالقادر صومالیہ میں چھوٹے علاقے کو کنٹرول کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی پیسے اور رضاکاروں کی فراہمی کو بھی یقینی بناتے ہیں۔
عبدالقادر یوگنڈا میں اتحادی ڈیموکریٹک فورسز (اے ڈی ایف) کے باغیوں کی بھی مالی معاونت کرتے رہے ہیں اور ان کی مدد سے ’اے ڈی ایف کا رجحان جہاد کی طرف ہو گیا ہے اور ہتھیاروں اور فنڈنگ کے حصول کی کوشش میں ہیں۔‘
چند تجزیہ کاروں کے خیال میں عبدالقادر مومن ہی داعش کے خلیفہ یعنی سربراہ ہیں لیکن دوسری جانب ایسا اقدام تنظیم کے نظریات کی خلاف ورزی بھی سمجھا جائے گا اور حمایتیوں کی جانب سے مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اصولی طور پر داعش کے خلیفہ کا تعلق عرب سے ہونا چاہیے جبکہ برطانوی تھنک ٹینک کاؤنٹر ایکسٹریزم پراجکٹ کے ڈائریکٹر جیکب شنڈلر کے مطابق گروپ کے نظریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ’اورنج داڑھی والا صومالی‘ گروپ کا سربراہ نہیں ہو سکتا۔
ریسرچر ٹور ہمنگ کا کہنا ہے کہ اگرچہ عبدالقادر مومن کی سربراہی میں انتہائی کم جنگجو ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے تنظیم میں ابھر کر سامنے آنے سے واضح ہے کہ دولت اسلامیہ میں خلیفہ کا عہدہ سنبھالنے والا شخص سب سے اہم عہدیدار نہیں رہا اور داعش کا سٹریٹیجک جھکاؤ افریقہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔