نومبر 2011 کی صبح جب لاہور ہائی کورٹ میں نئے چیف جسٹس نے اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا تو سہ پہر کو کچھ کورٹ رپورٹرز ملاقات کے لیے ان کے چیمبر میں پہنچ گئے۔
انتہائی پھرتیلی اور ہشاش بشاش طبیعت کے مالک چیف جسٹس نے اس غیر رسمی ملاقات کو اپنی گفتگو سے دلچسپ بنا دیا۔
اُن دنوں سگریٹ کی نئی نئی لت لگی تھی سو جب چیف جسٹس سے چیمبر سے باہر جا کر سگریٹ پینے کی اجازت چاہی تو انہوں نے اپنی جیب سے ڈبی نکال کر کہا کہ ’آؤ اکٹھے پیتے ہیں۔‘
مزید پڑھیں
-
براڈشیٹ انکوائری کمیٹی کے سربراہ جسٹس (ر) عظمت سعید کون ہیں؟Node ID: 534411
یہ جسٹس (ر) شیخ عظمت سعید سے میری پہلی ذاتی نوعیت کی ملاقات تھی۔
وقت کا پہیہ گھوما اور وہ سپریم کورٹ کے جج بن گئے۔
ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ سپریم کورٹ میں ان کے چیمبر اور لاہور میں کبھی کبھار ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی میں ان کی ذاتی رہائش گاہ میں بھی جاری رہا۔ وہ ہر ہفتے چُھٹی کے دونوں دن یہیں گزارتے تھے۔
شیخ عظمت سعید لاہور ہائی کورٹ کے اُن چار ججز میں سے تھے جنہوں نے 2007 کی پرویز مشرف کی ایمرجنسی میں پہلے تو حلف نہ اُٹھایا لیکن بعد میں افتخار چوہدری کی معطلی کے باوجود آئین بحال ہونے پر حلف اُٹھا لیا۔ باقی تین ججز میں ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ اور عمر عطا بندیال شامل تھے۔
جب افتخار چوہدری بطور چیف جسٹس بحال ہوئے اور سپریم کورٹ نے پی سی او کے تحت حلف لینے والے 100 ججز کو ایک فیصلے کے نتیجے میں فارغ کر دیا تو یہ چاروں جج بدستور لاہور ہائی کورٹ میں اپنے عہدوں پر براجمان رہے۔
بعد میں ان چاروں ججز کا پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ میں کردار کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں ہے۔
جب شیخ عظمت سعید پانامہ بینچ کا حصّہ بنے تو ان کے لاہور آنے پر ان سے ملاقات لازم ٹھہرتی۔ ان تمام ملاقاتوں میں سینیئر کورٹ رپورٹر محمد اشفاق بھی ہمیشہ ہمراہ ہوتے تھے۔
وہ ملاقات کے دوران چائے اور چکن ڈرم سٹکس سے ہی تواضع کرتے۔ جب ان سے شکوہ کیا کہ ’مینیو ہی بدل لیں‘ تو وہ مسکرا دیے لیکن چہرے پر اضطراب نمایاں تھا۔
وہ جمعے کو نواز شریف کو برطرف کرنے کا فیصلہ دے کر لاہور آئے تھے اور نواز شریف جی ٹی روڑ پر ایک جلوس کی شکل میں لاہور واپس آ رہے تھے۔
اسی اضطراب میں جب ان سے کیس کے فیصلے کی بابت پوچھا تو ان کا جواب کچھ یوں تھا کہ ’یہ نواز شریف کیا کر رہا ہے۔ یہ بیمار بندہ ہے۔ ویسے بھی جو اس کا قد کاٹھ ہے اسے یہ زیب نہیں دیتا۔‘ تاہم انہوں نے اپنے فیصلے کا دفاع کیا۔
![](/sites/default/files/pictures/February/36516/2025/d1a77ef1-58f4-4b5f-9de5-1e421d2a6750_w1023_r1_s_1.jpg)
کیس کا فیصلہ آنے سے پہلے جب ملاقات ہوئی تھی تو ان سے پوچھا کہ ’کیا فیصلہ آ رہا ہے‘ تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’اگر میں نواز شریف کا وکیل ہوتا تو فیصلہ آنے سے پہلے انہیں استعفی دینے کا مشورہ دیتا۔‘ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گئے۔
سپریم کورٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ عدالتی معاملات میں بہت گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ کئی جج جو ان کے شاگرد تھے، ان کی رہائش گاہ پر باقاعدگی سے آتے تھے۔
جب ثاقب نثار متنازع ہونا شروع ہوئے تو یہ بات شیخ عظمت سعید کو بہت ناگوار گزر رہی تھی۔ ایسی ہی ایک ملاقات میں جب ان سے گزارش کی کہ انٹرویو ہی دے دیں تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔
اپنی مخصوص ہنسی میں کچھ یوں گویا ہوئے: ’جتنے راز میرے اندر ہیں اس پر تو میرا دل کرتا ہے کہ کتاب لکھوں۔ یہ بات جب میں نے آصف (سعید کھوسہ) کو بتائی تو وہ اُچھل کر چھت کو جا لگا کہ خبردار ایسی کوئی حرکت کی تو! لیکن میں ایک ڈائری ضرور لکھ رہا ہوں جو میرے مرنے کے بعد منظرعام پر آئے گی۔‘
ان کے اس جواب کے بعد دوبارہ کبھی انٹرویو کا سوال نہیں کیا۔
جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ کا شمار پاکستان کی عدالتی تاریخ کے اُن ججوں میں ہوتا ہے جن کے ہاتھوں سے ایسے فیصلے لکھے گئے جنہوں نے پاکستان کی سیاست پر گہرے نقوش چھوڑے۔
جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید کا تعلق لاہور سے تھا اور انہوں نے 1980 میں وکالت کے شعبے میں قدم رکھا۔ بطور وکیل انہوں نے کارپوریٹ وکالت کی پریکٹس کی۔
قانوی ماہرین کے مطابق وہ ٹیکس اور کاروباری و قانونی معاملات پر ایک سند کی حیثیت رکھتے تھے۔
ان کی وکالت میں پہلا موڑ اُس وقت آیا جب انہوں نے 1997 میں اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے بنائے گئے احتساب بیورو میں خصوصی پراسیکیوٹر کے طور پر ذمہ داریاں سر انجام دیں۔
![](/sites/default/files/pictures/February/36516/2025/995136-1078206349.jpg)
اس کے بعد سابق فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں جب قومی احتساب بیورو یعنی نیب کا ادارہ بنایا گیا تو 2001 میں شیخ عظمت سعید نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر بنے۔
ق لیگ کے دور حکومت میں 2004 میں انہیں پہلی دفعہ لاہور ہائی کورٹ کا ایڈہاک جج مقرر کیا گیا بعد ازاں 2005 میں وہ لاہور ہائی کورٹ کے مستقل جج بن گئے۔
2007 میں جب پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگا کر چیف جسٹس افتخار چوہدری کو گھر میں نظر بند کیا تو اُس وقت جن ججز نے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا تھا، شیخ عظمت سعید ان میں سے ایک تھے۔
انہیں ڈیفنس ہاوسنگ سوسائٹی میں ان کے گھر پر ہی نظر بند کیا گیا۔
نومبر 2011 میں ان کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مقرر کر دیا گیا۔ ایک سال چیف جسٹس رہنے کے بعد سال 2012 میں وہ سپریم کورٹ کے جج بنے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے جب شریف فیملی کی مبینہ کرپشن ’ڈھونڈنے کے لیے‘ براڈ شیٹ نامی کمپنی کی خدمات حاصل کیں تو ایک خطیر رقم سرکاری خزانے سے جاری ہونے کے بعد معاملہ متنازع ہو گیا۔
پی ٹی آئی کی حکومت نے شیخ عظمت سعید کو اس معاملے کی انکوائری کے لیے کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا۔
وہ گذشتہ کچھ عرصے سے گردے اور جگر کی بیماری میں مبتلا تھے۔ بدھ کے روز ان کا ڈائلیسز ہوا اور طبیعت بگڑ گئی جس کے بعد وہ جانبر نہ ہو سکے۔