Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میدان عرفات ، حج مقامات میں سے ایک

 شمال سے جنوب تک 12کلو میٹر اور مشرق سے مغرب تک 5کلو میٹر پھیلے پوئے اس علاقہ میں زندگی کے آثار صرف یوم عرفہ کو ہی نظر آتے ہیں
 
 
میدان عرفات حج مقامات میں سے ایک ہے۔یہ وہ مقام ہے جہاں دنیا کے گوشے گوشے سے آنے والے عازمین حج 9ذی الحجہ کو جمع ہوتے ہیں۔یہاں 9ذی الحجہ کو حاضری کے بغیر حج ہی نہیں ہوتا۔ یہ مکہ مکرمہ سے مشرق کی جانب طائف کی راہ پر 21 کلو میٹر دور ایک میدان بڑا وسیع و عریض ہے۔ شمال سے جنوب تک 12کلو میٹر اور مشرق سے مغرب تک 5کلو میٹر پھیلا ہوا ہے۔یہ شمالی جانب سے عرفات نامی پہاڑی سلسلے میں گھرا ہوا ہے۔9ذی الحجہ سے پہلے سنسان پڑا رہتا ہے جبکہ حج کے دن عظیم الشان عصری شہر کا منظر پیش کرتا ہے۔
 
میدان عرفات حرم مکی سے باہر واقع ہے،یہ حج مقامات میں واحد جگہ ہے جو حدود حرم سے خارج ہے۔اسکے بیچوں بیچ جبل رحمت ہے۔ یہ میدان عرفات کے شمال مشرق میں سرخ رنگ کی ایک مخروطی پہاڑی ہے جس کی اونچائی 200 فٹ سے کچھ کم ہے اور عرفات کے اصل پہاڑی سلسلے سے ذرا الگ سی ہوگئی ہے۔ اس پہاڑی کو بھی عرفہ کہتے ہیں لیکن اسکا زیادہ معروف نام جبلِ رحمہ ہے۔ یہ وہ پہاڑی ہے جس کے پہلو میں پیغمبر اعظم و آخر محمد مصطفی نے وقوف فرمایا تھا۔ ہر سال عازمینِ حج 9ذی الحجہ کو یہاں آکر وقوف کرتے ہیں اور جو اس تاریخ کو میدان عرفہ نہیں پہنچ پاتے انکا حج نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ وقوفِ عرفہ کرنے والوں پر فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ : ”میرے بندو ں کو دیکھو کہ یہ میرے دربار میںگرد اور غبار آلود ہوکر پہنچے ہوئے ہیں،یہ میری رحمت کے امیدوار ہیں،یہ میرے عذاب سے خائف ہیں میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انکی مغفرت کردی۔“۔
 
جبل رحمت کے مشرقی جانب پتھر کی چوڑی سیڑھیاں چوٹی تک گئی ہیں۔ یہ اتابک زنگی کے وزیر جمال الدین الجاوید نے بنائی تھیں۔ جبل رحمت کے اوپر ایک مینار بنا ہوا ہے اور 60ویں سیڑھی پر ایک چبوترہ ہے اس پر ایک منبر رکھا ہے۔ ماضی میں یوم عرفہ کا خطیب اسی منبر پر کھڑے ہوکر 9ویں ذی الحجہ کو ظہر اور عصر کی نمازایک ساتھ شروع کرنے سے قبل خطبہ دیا کرتا تھا۔
 
میدان عرفات سے قبل ایک کافی چوڑا برساتی نالہ آتا ہے جس کا نا م وادی¿ عرنہ ہے۔ اس وادی کے اوپر تقریباً ایک کلو میٹر کے اندر کشادہ پل بنے ہوئے ہیں۔ مسجد نمرہ کے قریب اس برساتی نالے میں ہلکا سا خم ہے جیسا آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کے شکار کرنے والے لکڑی کے آلے ”بوم رنگ “کے درمیان ہوتا ہے ۔ اس نالے سے برسات کے موسم میں پانی اس انداز سے گزرتا ہے جیسے باڑ آگئی ہو، عام دنوں میں یہ خشک پڑا رہتا ہے، ایسا لگتا ہے گویا ریت کا دریا ہو۔ عربی میں وادی کا لفظ دریا کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے۔ یہاں سعودی عرب میں اکثر وادیاں عام دنوں میں خشک پڑی رہتی ہیں البتہ بارش ہوتی ہے تو لمحوں میں خوفناک دریا کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
 
 مکہ سے آنے والے عازمین درہ مازمین سے نکل کر ان ستونوں کے پاس سے گزرتے ہیں جو حرم کی حد بندی کرتے ہیں۔ ان ستونوں کے مشرق کی جانب ہی وادی¿ عرنہ نامی وہ نشیبی علاقہ واقع ہے جس کے کونے پر مسجد نمرہ کا ایک حصہ بنا ہوا ہے۔اس مسجد کے کئی نام ہیں،” مسجد نمرہ، مسجد عرفہ اور مسجد ابراہیم“۔
 
اس مسجد سے مشرق اور جبل رحمت سے مغرب کی جانب دور تک وقوف کا میدان پڑا ہوا ہے۔ اسے مقام موقف اور مختلف ناموں سے یاد کیا جاتاہے۔
 
”دائرة المعارف الاسلامیہ“ میں صفحہ 265 اور266 میں تحریر ہے کہ مسجد نمرہ سے مشرق او ر جبل رحمت سے مغرب کی جانب دور تک میدانِ عرفہ چلا گیا ہے۔ مشرق کی طرف کوہستان طائف کے سلسلے سے گھرا ہوا ہے۔ اسلام کی ابتدائی صدیوں میںاس میدان میں کئی کنویں کھودے گئے تھے اور متعدد باغوں اور سکنی مکانوں کا ذکر ملتا ہے۔
 
 ملکہ زبیدہ کے حکم سے طائف کے علاقے سے مکہ تک پانی لانے کے لئے جو نہر بنائی گئی تھی وہ بھی عرفہ پہاڑی کے دامن میں بہتی تھی۔ یہاں زندگی کے آثار صرف یوم عرفہ کو ہی نظر آتے ہیں جبکہ حاجی وقوف عرفہ کے لئے یہاں خیمہ زن ہوتے ہیں۔
 
عرفہ کے نام کی ابتداءسے متعلق کچھ معلوم نہیں، روایت میں اسکی توجیہ اس طرح کی گئی ہے کہ جب حضرت آدم اور اماںحوا علیہما السلام جنت سے نکالے گئے اور ایک دوسرے سے جدا ہوگئے تو وہ دوبارہ اس مقام پر ملے اور انہوں نے ایک دوسرے کو پہچانا (تعارفاً)۔
 
ایک اور توجیہ یہ بیا ن کی جاتی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یوم عرفہ کے مناسک سکھائے تھے۔ بعض نے یہ توجیہ بھی کی ہے کہ اس مقام پر لوگ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے اور اللہ کے حضور استغفار کرتے ہیں گویا یہاں وہ عرفان ذات پاکر کمالِ بندگی کا اظہار اور رب العالمین کی عظمتوں کا اعتراف کرتے ہیں۔
 
وادی¿ عرنہ کا پل عبور کرنے کے بعد دائیں ہاتھ مسجد نمرہ بنی ہوئی ہے،یہ وہ مسجد ہے جہاں سے خطیب عرفہ، حج کا تاریخی خطبہ دیتے ہیں۔ قدرے فاصلے میں بائیں جانب کو جبل رحمت ہے۔ بہت دور دائیں جانب طائف جانیوالا روڈ ہے، اسی پر حاجیوں کی گاڑیوں کیلئے سب سے بڑی پارکنگ بنی ہوئی ہے۔ میدان عرفات میں مختلف مقامات پر گاڑیاں پارک کرنے کےلئے اسپیشل پارکنگ لاٹس بنائے گئے ہیں۔
 
 میدان عرفات میں قابل ذکر عمارتیں 2ہی ہیں۔ ایک تو مسجد نمرہ ،دوم یہاں کا اسپتال۔مسجد نمرہ کا ایک حصہ میدان عرفات کی سرحد سے خارج ہے،وہاںاسکی علامتیں بنی ہوئی ہیں۔ آگہی کے لئے تختیوں پر تحریر کردیا گیا ہے کہ یہ حصہ میدان عرفات سے خارج ہے اسی وجہ سے وہ لوگ جو ظہر اور عصر سے قبل اس حصے میں بیٹھ کر خطبہ سن رہے ہوتے ہیں ظہر اور عصر کی نماز ایک اذان اور2تکبیروں کے ساتھ ادا کرنے کے لئے مسجد کے اس حصے میں منتقل ہوجاتے ہیں جو میدان عرفات کا حصہ ہے۔
 
سعودی حکومت نے میدان عرفات تک پہنچنے کے لئے جدید طرز کے راستے تیار کرادیئے ہیں۔ ماضی میں منیٰ سے میدان عرفات کا سفر بڑا مشکل ہوتا تھا۔ راستے میں جھاڑیاں اور ناہموار راستے پڑتے تھے، اب ایسا نہیں ۔ مسجد الحرام سے لیکر میدان عرفات تک پیدل حج کرنے والوں کے لئے الگ راستہ بنایا گیا ہے اور اس پر جگہ جگہ وضو اور پینے کے لئے پانی کی ٹونٹیاں اور سبیلیں لگائی گئی ہیں۔
 
 مغرب کی اذان تک میدان عرفات جانے کے لئے یکطرفہ راستے کھلے ہوتے ہیں جبکہ مغرب تک کسی کو بھی میدان عرفات سے نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہاں بحکم شریعت عازمین کو مغرب کی نماز ادا نہ کرنے کا حکم ہے۔ ہدایت یہ ہے کہ جب عرفات سے حاجی مزدلفہ پہنچیں تو وہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک اذان اور 2 اقامت کے ساتھ ادا کریں۔ مغرب کے بعد میدان عرفات سے نکلنے والے تمام راستے یکطرفہ ہوجاتے ہیں، سارے راستے مزدلفہ کے لئے کھلے ہوتے ہیں۔ سڑکوں کے اطراف تیز سرچ لائٹو ں کا بندوبست ہے اور اس طرح رات کے وقت دن کا گمان ہوتا ہے۔
 
میدان عرفات چند برسوںقبل تک چٹیل میدان ہوتا تھا۔ کہیں کہیں گھاس نظر آجاتی تھی لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔ میدان عرفات میں زبردست شجر کاری کی گئی ہے۔یہاں ہزاروں حاجی خیموں کے بجائے نیم کے درختوں کے نیچے چادر ،دری یا جائے نماز بچھا کرعبادت اور ذکر میں مشغول ہوجاتے ہیں۔
 
ضیوف الرحمان کو سورج کی تمازت سے بچانے کے لئے میدان عرفات میں پھوار کا بندوبست کیا گیاہے۔ اسکی شکل یہ ہے کہ جگہ جگہ اونچے اونچے کھمبے نصب ہیں اور اسکے بالائی حصے سے ٹھنڈا پانی فوارے کی شکل میں گرتارہتا ہے جس سے ماحول میں خنکی پیدا ہوجاتی ہے اور اگر گرمی شدید ہوتی ہے تو اس صورت میں درجہ حرارت اتنا گر جاتا ہے کہ ضیوف الرحمان اسکے متحمل ہوسکیں۔
 
میدان عرفات میںکسی بھی حاجی کو کھانا بنانے کی ضرورت پیش نہیں آتی، اس کا انتظام کئی طرح سے ہوتا ہے۔ کئی مخیر شخصیات نے میدان عرفات میں بڑے بڑے مطبخ قائم کئے ہوئے ہیں جہاں لنگر کی شکل میں کھانا پیش کیا جاتا ہے۔ ہزاروںحاجی اِن لنگروں میں جاتے ہیں تو انہیں کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں بعض معلمین گرم کھانے کے پیکٹ تیار کرواتے ہیں اور دوپہر کے وقت ضیوف الرحمان کو پیش کرتے ہیں۔
 
بادشاہ سلامت کی جانب سے بھی بڑے پیمانے پر گرما گرم کھانے کے لاکھوں پیکٹ وقوف عرفہ کے دن خیموں میں پہنچائے جاتے ہیں،علاوہ ازیں فاسٹ فوڈ والی معروف و مشہور کمپنیاں بھی اپنی برانچیں کھولے رکھتی ہیں جن سے ایسے عازمین جو اپنے طور پر حج کرتے ہیں کھانا حاصل کرلیتے ہیں۔جگہ جگہ ٹھنڈے اور گرم مشروبات بھی فروخت ہوتے نظر آتے ہیں، تازہ پھل بھی میدان عرفات میں مہیا ہوتے ہیں۔
 
میدان عرفات میں وقوف کے ایک، ایک لمحے کی رپورٹنگ ہوتی ہے۔سعودی عرب ہر سال دنیا بھر کے سیٹلائٹ چینلز کو وقوف عرفہ کے مناظر براہ راست پیش کرنے کے لئے جملہ سہولیات مفت فراہم کرتا ہے۔ اسکے لئے ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کے نمائندوں کو ہیلی کاپٹروںکے ذریعے پورے میدان کا دورہ کرایا جاتا ہے، انہیںاوپر سے حاجیوں کے خیموں اور پورے میدان کی تصاویر بنانے اور اپنے مطبوعات اور ٹی وی چینلز کو فلمیں بھیجنے کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔
 
سعودی حکومت نے میدان عرفات میں ریڈیو، ٹی وی ٹاور قائم کررکھا ہے۔ یہ ٹاور وزارت ثقافت و اطلاعات کے عظیم الشان کیمپ کے اس حصے میں واقع ہے جو مسجد نمرہ کی طرف ہے۔ وہاں سے مسجد نمرہ اور پورے میدانِ عرفات کا منظر صاف نظر آتا ہے۔ اس ٹاور سے عربی کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی ،ترکی، اردو ، فارسی ، بنگالی ، ترکستانی ، سواہلی اور دیگر کئی زبانوںمیں آنکھوںدیکھا حال پیش کیا جاتا ہے، اسکا سلسلہ ریڈیوسے بھی ہے اور ٹی وی سے بھی۔
 
جدید دنیا کے دسیو ں سیٹلائٹ چینل کے نمائندے بھی اس ٹاور پر موجود ہوتے ہیں اور وہ تسلسل کے ساتھ یہاں سے تازہ ترین صورتحال پر مشتمل مناظر اور وڈیو اپنے ناظرین کو ارسال کرتے رہتے ہیں۔ 
 
سعودی حکومت یہ ساری سہولیات اس نیت اور اس جذبے سے پیش کرتی ہے کہ اسے معلوم ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی تصویر مشرق و مغرب کے میڈیا نے بگاڑ رکھی ہے۔ اسے پتہ ہے کہ اسلام کی وہ تصویر جو چشم کشا حقائق پر مبنی ہو عالمی رائے عامہ سے اوجھل رکھی گئی ہے۔ سعودی حکومت چاہتی ہے کہ سارا جہاں دیکھے کہ دنیا کے گوشے گوشے سے آنے والے فرزندان اسلام یہاںآکر کیا کررہے ہیں۔ وہ یہ جتانا اور دکھانا چاہتے ہیں کہ ہر رنگ، ہرنسل ، ہر زبان، ہر تہذیب اور ہر معیار کے لوگ جو پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں ، یہاں پہنچ کر اسلامی اور انسانی اخوت کے رشتے سے ایسے جڑے نظرآتے ہیں لگتا ہے کہ یہ برسہا برس سے ساتھ رہ رہے ہوں اور ان سب کے جملہ مفادات ایک ہوں اور وہ سب کے سب ان مفادات کے امین ، محافظ اور ترجمان ہوں۔
 
سعودی حکومت یہ دکھانا چاہتی ہے کہ اسلام کے خلاف جو بدنظمی اور ڈسپلن سے محرومی کا الزام لگایا جاتا ہے وہ کس حد تک غلط ہے۔ حاجیوں کے قافلے ایک وقت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ کے لئے نکلتے ہیں، وقت کی انتہائی پابندی کرتے ہیں، ایک ہی وقت میں تمام حاجی نمازیں ادا کرتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں تمام حاجی اپنے گناہوں کا اعتراف رب العالمین کے حضور کرکے اس سے معافی کے طلبگار ہوتے ہیں اورآئندہ اپنی زندگی رب کی مرضی کے مطابق گزارنے کا عہدو پیمان کرتے ہیں۔
 
آنے والے عازمین وقوف عرفہ کے دن دنیا کے تمام انسانو ںکے لئے وہ یہودی ہوں یا عیسائی، مشرک ہو ںیا کافر ، ہندو ہو ں یا لادین سب کی ہدایت اور خیر خواہی کے لئے دعا کرتے ہیں۔ وہ زبانِ حال سے پیغام دیتے ہیں کہ ہم اس جگہ آج جمع ہوئے ہیں جہاں ہم سب کے جدِّ امجد بابا آدم اور ہم سب کی ماں حوا علیہما السلام ایک دوسرے سے ملے تھے۔ انسانیت کا یہ رشتہ ہم زندہ کرنا اور دیکھنا چاہتے ہیں۔
 

شیئر: