Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران کیساتھ جنگ، سعودی اخبار کا کالم

سعودی اخبار الشرق الاوسط میں عبدالرحمان راشد کا شائع ہونے والا کالم:
ایران کیساتھ جنگ کے آپشن
عبدالرحمان الراشد۔ الشرق الاوسط
ایران اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مقابلے کے محاذ بڑھتے جارہے ہیں۔ریاض پر حوثیوں کے بیلسٹک میزائل کاحملہ خطرناک فوجی تبدیلی ہے۔ اسے لبنان، شام اور عراق میں ایران کیساتھ علاقائی کشمکش سے جدا کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ شام سے افواج اور ملیشیاﺅں کو نکالنے کے مسلسل مطالبے ایران کی جانب سے مسترد کئے جانے کے باعث سفارتی طور طریقے ناکام ہوچکے ہیں۔ اس سے قبل ایران عراق سے اپنے عسکریت پسندو ںکو نکالنے کے مطالبے ٹھکرا چکا ہے۔ ایرانی عراق میں عسکری پیمانے پر سرگرم عمل ہیں۔کردستان کے خلاف عسکری کارروائی کی قیادت بھی ایرانی ہی کررہے تھے۔
ایران فاصلے سے حربی معرکے کے انتظامات کررہا ہے۔ عراق، شام ، لبنان اور یمن میں ایران کا معمول یہی ہے۔ خطے کے ممالک اور امریکہ ایران کو اثر و نفوذ پھیلانے کی حکمت عملی سے باز رہنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ 
ایران اِن دنوں اپنے حریفوں کو 2 پالیسیوں میں سے کسی ایک کو اپنانے پر مجبور کررہا ہے۔ ایک پالیسی یہ ہے کہ خود ایرانی نظام سے براہ راست ٹکر لی جائے یاایران سے نیابتی جنگ کا کوئی سلسلہ پیدا کیا جائے۔ پہلے راستے کو اپنانا بعید از امکان ہے۔ اس پر صرف دفاعی حالت ہی میں عمل کیا جاسکتا ہے۔ایران خود براہ راست جنگ سے دامن بچاتا ہے۔ مزار شریف میں طالبان نے ایران کے 8 سفارتکاروں کو ٹھکانے لگایا تھا ،تب بھی اس نے براہ راست کارروائی سے گریز کیا تھا۔ ایران نے انتہائی صبر و تحمل سے کام لیکر افغانستان میں دم چھلا ملیشیا قائم کی۔
عراق میں ایرانی تسلط کے باوجود عراقی فوج ایران نواز مسلح عراقی طاقتوں سے محاذ آرائی نہیں کرسکتی۔ اسکے 2سبب ہیں۔ ایک تو ایران کا اثر و نفوذ غیر معمولی ہے۔ دوم ایران نواز مسلح طاقتیں ایک سے زیادہ ہیں۔عراق میں الحشد الشعبی اور عراقی فوج کیساتھ ایران من مانی کررہا ہے۔ ایران ہی کرکوک میں کردوں کی بیخ کنی کیلئے ان دونوں کو استعمال کررہا ہے۔ ایران ہی کی شہ پر عراقی فوج اور الحشد الشعبی نے تیل سے مالا مال مقامات اور جغرافیائی اہمیت کے حامل علاقوں کے خلاف فوجی کارروائی کی۔
متاثرہ ممالک ملیشیاﺅں کی کشمکش کے ذریعے ہی توازن کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہونگے۔ ایرانی ملیشیا اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں بڑے پیمانے پر موت کی سزائیں نافذ کررہی ہیں۔ شامی نظام ِحکومت کا کنٹرول نہیں رہا ۔ ایرانی اسکا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
ایرانیوں کو نیابتی جنگ کا حربہ بہت مناسب لگ رہا ہے۔ ایران حزب اللہ کو سالانہ 700ملین ڈالر دیکر غیر معمولی فوائد حاصل کررہا ہے۔
ایران کیساتھ محاذ آرائی کادائرہ پھیلتا جارہا ہے، اسے لگام دینے والا کوئی نہیں۔ اگر لبنان میں حریری کیمپ کمزور پڑ گیا اور یمن میں حوثی باغیوں کی میزائل حملوں کی پوزیشن مضبوط ہوگئی تو اس سے براہ راست سعودی عرب کو خطرہ لاحق ہوگا۔ ایران کے ساتھ براہ راست جنگ کا اختیار بعید از امکان ہونے کے باعث ایران سے نمٹنے کیلئے متاثرہ ممالک میں مقامی ملیشیاﺅں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر:

متعلقہ خبریں