#روایتی_کتاب_کا _خاتمہ کافی نہیں، سعودی ٹویٹرز
سعودی وزیر تعلیم احمد العیسیٰ نے گزشتہ دنوں اعلان کیا تھا کہ وزارت تعلیم کے تحت تمام تعلیمی اداروں نے’’ #روایتی_ کتاب‘‘ کی جگہ الیکٹرانک کتابیں متعارف کروائی جائیں گی۔علاوہ ازیں 1700ٹیچروں کو فنٹس کی کلاسیں لینے کے لئے بیرون ملک بھیجا جائیگا۔ اس پر سعودی ٹویٹروں نے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا۔
سعودی ٹویٹر ورقۃ التوت نے لکھا: ٹیچروں کو بیرون ملک کس لئے بھیجا جارہا ہے، وہاں جاکر انہیں معلوم ہوگا کہ ٹیچر صرف ٹیچر ہی ہے جبکہ وہ وہاں معلم بھی ہے، رہنما بھی، تصحیح کرنے والا بھی، نرسنگ کرنے والا، رپورٹ بنانے والابھی، اسکول کا گارڈ بھی اور چھٹی کے وقت بچوں کو بسوں میں سوار کرنے والا بھی۔ بیچارہ جب بیرون ملک جاکر ٹیچروں کو دیکھے گا تو اسے صدمہ ہوگا۔
ایک اور ٹویٹر نے لکھا: صرف الیکٹرانک کتابوں سے کام نہیں چلے گا۔ یہاں پورے نظام تعلیم میں تبدیلی کی ضرورت ہے بلکہ پرانے نظام ِتعلیم کو اکھاڑ پھینکنے اور نئے نظام تعلیم کو رائج کرنے کی ضرورت ہے جو جدید اور نئی طرزِ زندگی سے ہم آہنگ ہو۔
صالح عبد اللہ نے ٹویٹ کیا: محض چند ٹیچروں کو بیرون ملک تربیت کیلئے بھیجنا کافی نہیں، یہاں سسٹم کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ہمیں تعلیمی اداروں کے ساتھ جدید طرز کا نظام اور وقت سے ہم آہنگ عمارتوں کے علاوہ تدریس کا نیا طریقۂ کار چاہئے۔
سعودی ٹویٹر نانو نے ٹویٹ کیا: روایتی کتابوں کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ کاغذ، قلم اور کتاب کی بہر حال ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے بھی روایتی کتاب اور طریقۂ تدریس کو ختم نہیں کیا۔ جدیدیت کا مطلب یہ نہیں کہ کاغذو قلم ختم کیا جائے بلکہ نظام کو جدید بنایا جائے۔
ریفال نے ٹویٹ کیا: وزارت کو ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا اور پھر ترجیحات کی فہرست بناکر اہمیت کے حساب ان کا تعین کرنا ہوگا۔ اس وقت روایتی کتابیں ختم کرنا ترجیحِ اول نہیں۔اولین ترجیح تعلیمی نظام کی درستگی ہے۔